میرا قلم میری زباں
محمد طاہر خان ندوی
Sada e Bismil Barabanki |
انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو مصیبتوں ، تکلیفوں اور پریشانیوں کے ساتھ رہتے رہتے جینے کا عادی بن جاتا ہے ۔ اس ملک میں بہت سے لوگ زہریلی ہوا میں رہنے کے عادی ہو جاتے ہیں ۔ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر چلنے کے عادی ہو جاتے ہیں ۔ ٹریفک جام میں گھنٹوں کھڑے رہنے کے عادی ہو جاتے ہیں ۔ غلط ہو رہا ہے مگر اس غلطی کے ساتھ جئے جا رہے ہیں ۔ رشوت کھلے عام لی اور دی جا رہی ہے لیکن پھر بھی رسم ادا ہے سو نبھائے جا رہے ہیں ۔ اصل میں ہمارے لوگ سڑے ہوئے اور بدبودار سماج میں رہنے کے عادی ہو گئے ہیں اور مسائل کی بات کرتے کرتے اب ہم خود مسائل کے ساتھ جینے لگتے ہیں ۔ دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں دیکھ لیجئے کہ ہوا کتنی زہریلی ہو گئی ہے اور پولیوشن کتنا بڑھ گیا ہے ۔ سانسیں ٹوٹنے لگی ہیں ۔ دم گھٹنے لگا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگ ٹریفک پولیس سے بچنے کے لئے پولیوشن سرٹیفکیٹ کا لیبل لگا کر دھندا کرنے لگے ہیں ۔ اور زہریلی ہوا سے بچنے کے لئے اپنے گھروں میں ائیر پیوری فائر لگا کر مطمئن ہیں انہیں نہیں معلوم کہ ائیر پیوری فائر لگا دینے سے شہر کی آب و ہوا میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی اور نہ ہی سیاست کی ہوا صاف ہو سکتی ہے ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ بجلی کے بل کی ادائیگی میں بینک اور جیب ضرور صاف ہو جاتا ہے ۔ ہمارے ملک میں ایسے بہت مسائل ہیں لیکن ہمارے لوگ اب مسائل کے ساتھ چلتے رہنے کو مسائل کا حل بتانے لگے ہیں ۔ اس ملک میں تعلیمی ادارے چاہے وہ سرکاری مدرسوں کی بدتر حالت ہو ، سرکاری اسکولوں میں بچوں کے کھانے پینے سے لے کر ان کی تعلیم و صحت تک ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی عدم تقرری تک بہت سے مسائل ہیں ۔ سینٹرل یونیورسٹیوں میں اساتذہ نہیں ہیں ۔ آئی آئی ٹی میں فیکلٹی کے ٤٥٠٢ اساتذہ کے عہدے خالی ہیں ۔ آئی آئی ایم میں ٤٩٣ عہدے خالی ہیں ۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کے کل ١١٠٠٠ سے زائد سیٹیں خالی پڑی ہیں ۔ سرکاری اسکولوں کی حالت تو اس سے کہیں زیادہ خراب ہے لیکن کیا کرے مسائل کے ساتھ جینے کی اب عادت بن چکی ہے کیوں کہ ہمارے سامنے مسائل کے انبار ہیں اور ان کا حل کہیں نہیں ہے۔ ایک طرف ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ بھارت وشو گرو بن رہا ہے تو دوسری طرف سینٹرل یونیورسٹیوں ، اسکولوں اور کالجوں میں گرو تک موجود نہیں ہے ۔ اب بنا گرو کے ان اداروں میں پڑھنے والے طلباء و طالبات کی کیا حالت ہوگی اور ان کا مستقبل کیا ہوگا یہ تو سرکار ہی بتا سکتی ہے ۔
ایک تبصرہ شائع کریں