بنگلہ دیش پاکستان سے کیوں الگ ہوا اورآج کہاں کھڑا ہے؟
طاہر خان ندوی
Sada e Bismil Barabanki |
ایک طویل جد و جہد کے بعد ملک ہندوستان آزاد ہوا تھا لیکن اپنی آزادی کے ساتھ تقسیمِ ملک کا اندوہناک واقعہ بھی ساتھ لے کر آیا ۔ اگست ١٩٤٧ کو یہ ملک آزاد ہوا اور اپنی آزادی کے کچھ دن بعد ہی پاکستان وجود میں آیا ۔ جس میں دو حصے تھے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ۔ مشرقی پاکستان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو بنگلہ زبان بولتے تھے جبکہ مغربی پاکستان میں بنگلہ بولنے والے نا کے برابر تھے ۔ اب ظاہر ہے زبان کے اختلاف کی وجہ سے پریشانیاں تھیں ۔ لسانی عصبیت ایک ایسی بیماری ہے جس نے قوموں قبیلوں اور ملکوں کو تباہ کر دیا اور یہی لسانی عصبیت پاکستان میں جنم لے رہی تھی جس کی وجہ سے دلوں میں نفرت ، حقارت اور برتر و کم تر کی صورت پیدا ہونے لگی تھی ۔
١٦ دسمبر ١٩٧١ پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا مقام رکھتا ہے ۔ یہ وہ تاریخ ہے جس دن بنگلادیش کو ایک علیحدہ ملک کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا جو اب تک پاکستان کا حصہ تھا لیکن اپنی آزادی کے محض ٢٤ سال بعد ہی بنگلادیش ( مشرقی پاکستان ) پاکستان ( مغربی پاکستان ) سے جدا ہو گیا ۔ یہ وہ تاریخ ہے جس دن پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے ، ایک ایسا ملک جو ایک قوم ، ایک دین ، ایک مذہب اور ایک ہی نظریہ رکھتا تھا، محض لسانی عصبیت کی وجہ سے تقسیمِ ملک کا شکار ہو گیا ۔
Sada e Bismil Barabanki |
بنگلادیش کی پاکستان سے علیحدگی کی جو سب سے اہم وجہ بتائی جاتی ہے وہ زبان کا مسئلہ ہے کہ اس ملک میں کون سی زبان بولی جائے اور کس زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے ۔ اس مسئلے کو پارلیمنٹ اور اسمبلی میں زیر بحث لایا گیا ۔ فروری ١٩٤٨ میں اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سامنے جب یہ بات آئی تو انہوں نے کہا کہ " پاکستان کروڑوں مسلمانوں کی مانگ پر بنا ہے اور مسلمانوں کی زبان اردو ہے لہذا کسی دوسری زبان کو اسمبلی میں نہیں رکھا جا سکتا " پھر اگلے ہی مہینے مارچ ١٩٤٨ میں جب محمد علی جناح نے ڈھاکہ کا دورہ کیا تو اس وقت بھی انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اردو ہوگی ۔
پاکستان کا دو ٹکڑے ہونا اور بنگلادیش کا وجود میں آنا اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہی لسانی عصبیت تھی جبکہ یہ ممکن تھا کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ زبان کو بھی جگہ دی جاتی ۔ آج ایسے بہت سے ملک ہیں جہاں ایک سے زائد زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس وقت جن لوگوں کے ہاتھ میں پاکستان کی حکومت تھی اگر وہ چاہتے تو یہ ممکن تھا اور ایک مسلم ملک کو تقسیم کی لعنت سے بچا سکتے تھے لیکن ان کی دور اندیشی دیر اندیشی بن کر ایک دوسرے ملک کو وجود میں لانے کا ذریعہ بن گئی ۔
١٩٧١ میں پاکستان سے آزادی کے بعد بنگلادیش کو کئی سانحات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ملک تقسیم ہوا ۔ لوگ تقسیم ہوئے ۔ جائیدادوں کا بٹوارہ ہو گیا ۔ ١٩٧٤ میں ایک خوفناک قحط کو دیکھا ۔ خوفناک غربت ، قدرتی آفات اور اب پناہ گزینوں کے بحران سے دوچار ہے ۔ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیائی مسلمان پڑوسی ملک برما میں اپنا گھر بار چھوڑ کر بنگلادیش آ چکے ہیں ۔ جس کی وجہ سے مزید پریشانیاں بڑھی ہیں ۔ آبادی بڑھتے بڑھتے اب ١٧٠٠ کروڑ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے ۔ بنگلادیش کی معیشت میں دو چیزوں کا بڑا حصہ ہے ۔ پہلا حصہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ہے اور دوسرا حصہ بیرون ملک کام کرنے والے لوگوں کی طرف سے بھیجی گئی رقم کا ہے ۔ بنگلادیش مینوفیکچرنگ کے شعبے میں اب تیزی سے ترقی کر رہا ہے ۔ ٹیکسٹائل کی صنعت میں چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔ بنگلادیش میں تیار کردہ کپڑوں کی برآمدات میں سالانہ ١٥ سے ١٧ فیصد اضافہ ہو رہا ہے ۔
بیرون ممالک کام کرنے والے تقریباً ٢٥ لاکھ بنگلا دیشیوں کا بھی بنگلادیش کی معیشت میں بڑا کردار ہے ۔ بیرون ممالک بھیجی جانے والی رقم میں سالانہ اٹھارہ فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے ۔ بنگلادیش میں ہندوستان کی طرح اختلافات نہیں ہیں ۔ ہندوستان میں مرکزی حکومت ایک بات کہتی ہے ، کبھی مہاراشٹرا کی حکومت اس کی مخالفت کرتی ہے کبھی پنجاب اور دہلی ۔ وہاں بھی کچھ اختلافات ہیں لیکن ذات پات ، زبان اور ریاست کی بنیاد پر کوئی تقسیم نہیں ہے ۔ اسی طرح بنگلادیش کی مارکیٹ ویلیو کی ان کی معیشت پر بڑا اہم کردار ہے ۔ بنگلادیش میں تیار کردہ لباس دنیا بھر میں ایک الگ اور معروف شناخت رکھتا ہے ۔ اسی طرح تعلیم ، صحت اور خوراک پر یہاں کی حکومت کے اخراجات کافی بہتر ہیں ۔ اس کی تصدیق مختلف ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس سے بھی ہوتی ہے ۔ اگر خواتین کو با اختیار بنانے کی بات کی جائے تو بنگلادیش اس معاملے میں اچھی حالت میں ہے ۔ بنگلادیش کی سیاست پر دو خواتین شیخ حسینہ اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کا غلبہ رہا ہے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بھی خواتین کی شرکت بہت زیادہ ہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ بنگلادیش کی حکومت نے اپنی عوام اور ملک کو بحران سے نکالنے اور سدھارنے کے لئے سیڑھی کے ذریعے اوپر چڑھنے کی کوشش کی ہے نہ کہ ہندوستان کی طرح لفٹ کا راستہ چنا ہے، لفٹ میں تکنیکی خرابی ہو سکتی ہے ، آپ کسی جگہ اٹک سکتے ہیں یا کسی جگہ رک سکتے ہیں لیکن سیڑھی ہو تو اترنا چڑھنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے تو یہ کہنا کوئی غلط نہیں ہوگا ۔ آج اگر دیکھا جائے تو بنگلادیش پہلے کے مقابلے میں کہیں بہتر حالت میں ہے ۔
بنگلہ دیشی کی آزادی کا ناقابل برداشت المیہ یہ ہے کہ غیر بنگالی۔۔یا دوسرے لفظوں میں بہاری مسلمانوں کو گھاس مولی کے طرح تہ تیغ کیا گیا اور پورا کا پورا خاندان کو مٹا دیا گیا۔۔۔اور جو تقدیر سے بچ گئے وہ آج بھی رفوجی کیمپ میں رھنے کو مجبور ہیں اور انکی زندگی جانور کی طرح یا اس سے بھی بدتر ہے
جواب دیںحذف کریںبنگلہ دیشی کے لئے ہندوستان مسیحا ہے۔۔۔کیونکہ آزادی دلانے کے لیے کلیدی کردار اندرا گاندھی(ہندوستان نے ادا کیا تھا۔۔اور ابھی بھی گردنیا پاسپورٹ کے ذریعہ ہزاروں لاکھوں لوگ ہندوستان میں آکر عزت کی زندگی گزار رہے ہیں
جواب دیںحذف کریںمیں نے دھلی میں دیکھا ھے سیکڑوں بستی ہے جہاں بنگلہ دیشی آباد ہے اور اب انکو شہریت بھی دیدیا گیا ہے
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں