صبحِ مغرور کو وہ شام بھی کرسکتا ہے
محمد طاہر خان ندوی
کسی زمانے میں اس کرہ ارض پر بڑی بڑی سلطنتیں قائم تھیں ، بڑی بڑی طاقتیں موجود تھیں اور اس کی پشت پر بڑے بڑے ظالم و جابر بادشاہ اور حکمراں اپنی آن بان اور شان کے ساتھ چلا کرتے تھے ۔ ساری دنیا پر جن کا رعب و دبدبہ تھا لیکن وہ تمام سلطنتیں اور بادشاہتیں ایسی مٹ گئیں جیسے کبھی تھیں ہی نہیں ۔ نہ تاریخ نے انہیں یاد رکھا اور نہ ہی لوگوں کے سینوں میں وہ زندہ رہ سکیں ۔ جنہیں کبھی " سپر پاورز " کہا جاتا تھا اور جن کی سلطنت میں سورج کو کبھی غروب نہیں تھا آج وہ نیست و نابود ہو کر رہ گئیں ۔ کسی زمانے میں سلطنت وزگوتھ کا طوطی بولتا تھا ۔ جس نے رومیوں کو نیست و نابود کرکے موجودہ دور کے اسپین اور جنوبی فرانس میں ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھی لیکن آج اس کا نام و نشان تک باقی نہیں ہے ۔ اسی طرح سلطنت اسٹریتھ کلائیڈ کا کسی زمانے میں کافی زور تھا اور یہ ایک ایسی زبردست سلطنت تھی جس نے برطانوی جزیروں کے درخشاں مستقبل کی راہ ہموار کی اور انہیں مستحکم کیا لیکن خود کو مستحکم اور پائیدار رکھنے میں ناکام ہو گئی ۔ اسی طرح اس کرہ ارض پر ساسانی سلطنت کا وجود ہوا جس نے ایرانی سلطنت کی داغ بیل ڈالی لیکن اپنے جارحانہ پالیسی کی وجہ سے زوال کا شکار ہو کر رہ گئی ۔ نہ جانے ایسی کتنی ہی سلطنتیں آئیں اور چلی گئیں ۔ بڑے بڑے حکمراں اپنی طاقت و حکمرانی کا جوہر دکھا کر آج دنیا سے ناپید ہو گئے ۔
اسی طرح ملک ہندوستان میں کسی زمانے میں کانگریس کا جلوہ تھا ۔ چہار جانب اس کا نام تھا اور اسی کا تذکرہ تھا لیکن پھر کیا ہوا بعد کے زمانے میں کچھ ایسے حکمراں اور سیاستداں آئے جس نے انانیت کی چادر اوڑھ لی اور فخر و غرور کا لباس پہن کر اپنے سوا کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ حکومت و اقتدار کے نشے میں ایسے مست ہوئے کہ یہ بھول گئے وقت اور حالات نے بڑی بڑی سلطنتوں کو اکھاڑ پھینکا ہے اور زمین نے بڑے بڑے حکمرانوں کو اپنی آغوش میں لے کر کسی جگہ دفن کر دیا کہ آج ان کی قبریں تک کسی کو معلوم نہیں ہیں اور کانگریس کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ زوال نے ان کا ٹھکانہ معلوم کر کے ان کی حکومت و اقتدار کا سورج غروب کر دیا۔
آج بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں جس راستے کی منزل سلطنتوں کا خاتمہ اور حکومت و اقتدار کا زوال ہوتا ہے ۔ آج مودی سرکار بھی اسی انانیت اور فخر و غرور کا شکار ہے جس کے شکار ماضی بعید میں گزشتہ حکمراں اور ماضی قریب میں کانگریس کی حکومت ہوئی تھی ۔ آج مودی سرکار جس طرح سے جارحانہ و جابرانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے کبھی سلطنت وزگوتھ ، اسٹریتھ کلائیڈ اور سلطنت ساسانی بھی اسی طرز پر چل رہی تھی لیکن یہ بات اپنی جگہ طئے شدہ ہے کہ حکومتیں و سلطنتیں شرک و کفر پر تو باقی رہ سکتی ہیں ظلم و جبر پر نہیں ۔ آج بھلے ہی مودی سرکار گجرات جیتنے پر جشن منا رہی ہے جہاں اس کی ستائیس سالوں سے حکومت تھی اور قبضہ جمائے بیٹھی تھی اسی سیٹ کو جیتنے پر بی جے پی میں ایسا جشن کا ماحول ہے جیسے پوری دنیا جیت لی ہو اور کارپوریٹ سیکٹروں اور زر خرید میڈیا گھرانوں میں ایسی خوشیاں منائی جا رہی ہیں جیسے انگریزوں کی غلامی سے ہمیشہ ہمیش کے لئے آزادی مل گئی ہو لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بی جے پی کا زوال شروع ہو چکا ہے ۔ حکومت و اقتدار کے ختم ہو جانے کا ڈر اور خوف سرایت کر چکا ہے ۔ پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی نظر آ رہی ہے ۔ ہماچل پردیش ہاتھ سے جا چکا ہے ۔ جہاں 98 فیصد ہندو آبادی ہے ۔ جہاں امیت شاہ نے زہر گھولنے کی تمام کوششیں کر ڈالیں ۔ بابر کو قبر سے لا کر کھڑا کر دیا ۔ رام مندر کا مسئلہ اٹھایا ۔ سام دام ڈنڈ بھید یعنی اپنے تمام ہتھیاروں کا استعمال کر لیا لیکن پھر بھی ہماچل پردیش کو ہاتھ سے جانے سے نہیں روک پائے ۔ دہلی ہاتھ سے نکل گئی ۔ راجستھان بھی مودی مکت ہو چکا ہے ۔ بہار میں بڑی مشکل سے جان بچی ہے ۔ چھتیس گڑھ بھی کسی اور کا گڑھ بن چکا ہے ۔ اڈیشہ بھی نہیں رہا ۔ اتر پردیش میں یوگی کے ڈنکے کی آواز پست ہونے لگی ہے اور کھٹولی ودھان سبھا سیٹ اور مین پوری ہاتھ سے نکل چکا ہے ۔ یہ سارے حقائق اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ موجودہ سرکار کے لئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے ۔ موجودہ سرکار کی صورت حال میں راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا سب سے اہم کردار رہا ہے ۔ اس یاترا نے مردہ دلوں کو زندہ کر دیا ہے ۔ مایوسی اور نا امیدی کو آس و امید میں بدل دیا ہے ۔ پست ہوتے حوصلوں کو بلندی دی ہے ۔ بکھرے ہوئے اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کا کام کیا ہے اور لوگ جوق در جوق اس یاترا سے جڑ رہے ہیں اور ظلم و زیادتی ، نفرت و عداوت ، تقسیم اور بٹوارے کی سیاست کے خلاف آواز اٹھانے لگے ہیں ۔ اب راہل گاندھی کو چاہئے کہ جو غلطی اس کے اسلاف نے یا بی جے پی نے کی ہے اس سے سبق حاصل کرے اور اپنی پارٹی کا محاسبہ کرے کہ اور زوال کے اسباب کو تلاش کرے اور تلاش کرکے اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے اور جس طرح سے اس یاترا کو کامیاب بنانے کی خاطر جد و جہد کی ہے اس کو آگے بھی برقرار رکھے اگر راہل گاندھی ایسا کرتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جس دن بی جے پی کا سورج غروب ہوگا اور کانگریس کا سورج طلوع ہوگا۔
صبحِ مغرور کو وہ شام بھی کر دیتا ہے
شہرتیں چھین کے گمنام بھی کر دیتا ہے
ایک تبصرہ شائع کریں