میرا قلم میری زباں | محمد طاہر خان ندوی

 میرا قلم میری زباں

طاہر خان ندوی



عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال کو گجرات اور ہماچل پردیش کا انعام دہلی کے ایم سی ڈی انتخاب میں مل گیا ہے ۔ دہلی کی ایم سی ڈی انتخاب جہاں بی جے پی کی گزشتہ پندرہ سالوں سے حکومت چلی آ رہی تھی اب اس پر عام آدمی پارٹی کا قبضہ ہو گیا ہے اور اس طرح اب پوری دہلی عآپ کی ہو گئی ہے ۔ یہ انتخاب کئی اعتبار سے اہم بھی تھا ۔ بی جے پی نے اپنے تین بڑے بڑے وزراء اعلیٰ ، یوگی آدیتیہ ناتھ ، ہیمنت شرما اور شیوراج سنگھ چوہان سمیت خود وزیر داخلہ امیت شاہ کو میدان پر اتار دیا تھا ، اس کے علاوہ یوگی آدیتیہ ناتھ کا زہریلا بیان بازی جس میں اروند کیجریوال کو آتنک وادی ، دیش دروہی ، رام ورودھی اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے تو یہاں تک کہا کہ اروند کیجریوال کو دھوکہ رتن ، منیش سسودیا کو شراب رتن اور ستیندر جین کو مساج رتن ملنا چاہئے ۔ اس انتخاب میں ایسی گندی اور نفرتی بیان بازی چل رہی تھی لیکن ان تمام نفرتی بیانات کے باوجود عام آدمی پارٹی کی جیت ہوئی اور پندرہ سال حکومت کرنے والی پارٹی کا بالآخر خاتمہ ہو گیا۔ عام آدمی پارٹی کے بارے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سافٹ ہندوتوا کے راستے پر چل رہی ہے لیکن ماہرین کے مطابق سافٹ ہندوتوا نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ ہندوتوا صرف ہندوتوا ہے اور کچھ نہیں ۔ 2012 میں انّا ہزارے کی تحریک دہلی کے رام لیلا میدان میں جب چل رہی تھی اسی وقت یہ واضح ہو گیا تھا کہ یہ آر ایس ایس کی تحریک ہے ۔ جب آپ عام آدمی پارٹی کی کارکردگی کو مختلف ریاستوں و صوبوں میں ووٹوں کے تناظر میں دیکھیں گے تو یہ بات صاف طور پر نظر آتی ہے کہ یہ پارٹی کسے فایدہ پہنچا رہی ہے ۔ جہاں جہاں کانگریس مضبوط تھی اور براہ راست بی جے پی کے مقابلے میں تھی وہاں عام آدمی پارٹی نے براہ راست بی جے پی کو فایدہ پہنچانے اور حکومت سازی میں بھرپور ساتھ دیا ہے ۔ آپ گوا میں دیکھ لیجئے کہ کانگریس نے جو سیٹیں گنوائی ہیں وہ عآپ کی وجہ سے ۔ آپ اتراکھنڈ کا الیکشن دیکھ لیجئے کہ اگر وہاں بی جے پی کی سرکار بنی ہے تو اس میں بھی عآپ کی کارکردگی نظر آتی ہے ۔ اروند کیجریوال کے سامنے جب مسلمانوں کا مسئلہ آتا ہے تو چھوٹے مودی بن جاتے ہیں اور ووٹوں کی سیاست کرنے لگتے ہیں ۔ بلقیس بانو کا معاملہ آتا ہے تو چپی سادھ لیتے ہیں ۔ شاہین باغ کا مسئلہ ہوتا ہے تو خاموش ہو جاتے ہیں ۔ جہانگیر پوری کا مسئلہ اٹھتا ہے تو آر ایس ایس کی زبان بولنے لگتے ہیں ۔ مرکز نظام الدین کا مسئلہ آتا ہے تو صاف طور پر ہندوتوا کے لہجے میں بات کرنے لگتے ہیں ۔ آر ایس ایس ہو ، بی جے پی ہو یا عآپ سب ہی ایک پلیٹ کے چٹے بٹے ہیں جنہیں صرف ووٹوں اور عہدوں سے مطلب ہے اس کے علاوہ کسی سے کوئی مطلب نہیں ۔ 


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی