ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف طاہر خان ندوی

ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف

طاہر خان ندوی



ہندوستان ایک جمہوری اور کثیر آبادی والا ملک ہے جس میں ہندو مسلم سکھ عیسائی اور اس کے علاوہ دیگر مذاہب آپس میں مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔ یہاں غیر مسلموں کی تعداد، مسلموں، دلتوں، آدیواسیوں، سکھوں، عیسائیوں اور بڈھسٹوں سے زیادہ ہے ۔ اور ہندوستان کی سیاست آزادی سے قبل بھی اور آزادی کے بعد بھی " ہندو ووٹ " کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے ۔ اور اسی اکثریت کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر سیاست دان طرح طرح کی سیاسی میدان میں کرتب دکھاتے ہیں اور ہندو ووٹ بینک حاصل کرتے ہیں۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے قبل ہندوستانی سیاست کسی دوسرے راستے پر چل رہی تھی اب چاہے وہ ذات پات کی سیاست ہو ، اونچ نیچ کی سیاست ہو ، امیری اور غریبی کی سیاست ہو ، لیکن بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی سیاست دان اور سیاست کا میدان دونوں ہی مذہبی ہو گئے پھر مذہبی کرتب بھی دکھائے جانے لگے اور لوگ بڑے شوق و ذوق کے ساتھ اس کرتب کو دیکھنے لگے ، اس مذہبی کرتب نے دھیرے دھیرے لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانا شروع کر دیا ، مذہبی رنگ میں رنگے سیاست دان اور سیاسی میدان نے جب مذہبی کرتب دکھانا شروع کیا تو لوگ اس کرتب کے دیوانے ہوتے چلے گئے اب حالت ایسی ہو گئی ہے کہ اس مذہبی کرتب کے علاوہ اب کوئی اور کرتب لوگوں کو اچھا نہیں لگتا ، اگر آپ ان لوگوں کا ساتھ چاہتے ہیں تو آپ کو وہی کرتب دکھانا ہوگا جو یہ دیکھنا چاہتے ہیں اور جو یہ دیکھتے آئے ہیں ۔



اس مذہبی کرتب کا راز اب افشا ہو چکا ہے ۔ اب ہر سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ اس کرتب میں شامل ہو کر ہندو ووٹ حاصل کرے ۔ پہلے ہندو ووٹس کی اس رتھ یاترا پر بی جے پی اور اس کے حامی جماعتیں سوار تھیں اور خوب مزے کے دن گزار رہی تھیں ، لیکن اب اسی رتھ یاترا پر عام آدمی پارٹی کے سربراہ ، دہلی کے وزیر اعلیٰ جناب اروند کیجریوال صاحب بھی سوار ہو کر اپنی سیاسی سفر کو تابناک بنانے کے لئے نکل پڑے ہیں ۔ عام آدمی پارٹی جب وجود میں آئی تھی اس وقت اپنے مخصوص طریقہ سیاست کو لے کر کافی چرچے میں تھی ، پورے ملک میں دہلی ماڈل کو پیش کیا جا رہا تھا ، ایک طرف گجرات ماڈل کا راگ الاپا جا رہا تھا تو دوسری طرف دہلی ماڈل جس میں اسکول ، کالج ، بہتر تعلیم و تربیت ، بہتر اسکولی نظام ، صحت و علاج کا عمدہ انتظام ، غریبوں اور پسماندہ طبقات کے لئے بہترین اسکول کا انتظام شامل تھا لیکن اب اروند کیجریوال یا عام آدمی پارٹی کو کسی اسکول اور کالج کی ضرورت نہیں ہے ، کسی تعلیمی ادارے کی ضرورت نہیں ہے ، تعلیمی اداروں میں بہتر انتظام کی ضرورت نہیں ہے ، کسی صحت و علاج اور ہسپتال کی ضرورت نہیں ہے نہ کسی غریب و تنگ دست کی ضرورت ہے ۔ اگر ضرورت ہے تو بس ہندوتوا کارڈ کی ضرورت ہے ، ہندوتوا کے اس کھیل میں خود کو سب سے بڑا ہندو اور ہندوتوا کا سب سے بڑا علمبردار ثابت کرنے کی ضرورت ہے ، اب ظاہر ہے کہ اروند کیجریوال اور ان کی پارٹی کے سبھی کارکنان اب یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں عام آدمی پارٹی بھی ہندوتوا کی علمبردار اور اروند کیجریوال اس نظریے کے پرچارک ہیں۔ گزشتہ دنوں سے اروند کیجریوال خود کو ہندوتوا ثابت کرنے میں لگے ہیں اور اسی چلتے کبھی وہ ہندوستانی کرنسی پر گاندھی جی کی تصویر کے ساتھ لکشمی اور گنیش جی کی تصویر بھی ہونی چاہیے تاکہ ملک کے اوپر خطرات کے جو بادل نظر آ رہے ہیں وہ چھٹ جائیں ۔ اور ملک کی مالی ، معاشی و اقتصادی حالت بہتر ہو جائے۔ اور کبھی خود کو ہندوتوا کا سب سے بڑا علمبردار کہتے نظر آتے ہیں ، کبھی ہندو دیوی دیوتاؤں کے سائے میں تصویر کشی کرتے نظر آتے ہیں ، اور کبھی کسی مندر میں ماتھا ٹیکتے اور زعفرانی رنگ میں ملبوس نظر آتے ہیں ۔ آج کل گجرات الیکشن کو لے کر اروند کیجریوال کافی ہندوتوا ہوگئے ہیں اور یہ کہنا کہ جس راستے پر وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا اور جس پر چل کر آج وہ وزیر اعظم بنے ہیں اسی راستے پر چلنے کی کوشش دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کر رہے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ لوہے کو لوہا ہی کاٹ سکتا ہے ، اگر بی جے پی ہندوتوا کی سیاست کر رہی ہے تو حزب مخالف کو چاہئے کہ وہ بھی ہندوتوا کی سیاست کریں اور بی جے پی کی اس لہر کو روکنا ہے اور اس کا توڑ پیدا کرنا ہے تو یہ کام اسی راستے پر چل کر ہوگا جس راستے پر آج بی جے پی کی پوری عمارت کھڑی ہے لیکن سیاسی میدان میں اس حکمت عملی پر عمل کرنا نقصان سے خالی نہیں ہے ۔ اس کا ایک نقصان تو یہ ہوگا کہ ہمارے ملک کی اقلیت چاہے وہ مسلم ہو ،دلت ہو ،آدیواسی ہو یا شیڈول کاسٹ ہو یہ حاشیہ پر چلے جائیں گے اور ان کے حقوق بھی تلف ہو جائیں گے۔ بی جے پی کی سیاست نہایت گھٹیا درجے کی سیاست ہے جس میں نفرت ہے ، دشمنی ہے ، تقسیم ہے، اونچ نیچ ہے۔ اگر اس جماعت کو توڑنا ہے تو آپ نوکری کی بات کریں ، تعلیم کی بات کریں ، اسکول و کالج کی بات کریں ، سڑک اور ریلوے کی بات کریں ، اسپتال اور صحت و تندرستی کی بات کریں ، نوجوانوں کے مستقبل اور امید کی بات کریں ، ان کی نوکری اور روزگار کی بات کریں ، ملک کو آگے لے جانے والے اور ملک کی حالت کو بہتر بنانے والے کام کئے جائیں ۔ اگر یہ باتیں عوام کے سامنے رکھی جائیں اور یقین دہانی بھی کرائی جائے اور یہ باتیں صرف کاغذی یا جھوٹے وعدے نہ ہو کر عملی ہوں تو ان شاءاللہ ملک کی مالی ، معاشی و اقتصادی  حالت بدلے گی اور عوام کو خوشحالی نصیب ہوگی ۔ 





Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی