نفرت انگیز تقاریر پر قانون کا دوہرا معیار کیوں ؟ محمد طاہر خان ندوی

 نفرت انگیز تقاریر پر قانون کا دوہرا معیار کیوں ؟ 

 طاہر خان ندوی 




مسلمانوں کے ساتھ قانون یا سیاست کا دوہرا معیار اور دوغلا پن اب پردۂ غیب میں نہیں رہا۔ کانگریس کے دور میں یہ بات ڈھکی چھپی تھی اور کم از کم مسلمانوں کے ساتھ قانون یا سیاست کا دوہرا معیار پردۂ غیب میں تھا لیکن بعد کے زمانوں میں جہاں بہت سی تبدیلیاں آئی ، حکومتیں آئیں اور گئیں ، کچھ نئے چہرے سیاست کے میدان میں نمودار ہوئے تو کچھ پرانے چہرے پر مٹی ڈال دی گئی۔ سپریم کورٹ سے لے کر ہائی کورٹ اور جوڈیشیل کورٹ تک کے ججوں اور وکیلوں کے نظریات اور بحث و مباحثے تک میں تبدیلی آ گئی۔  حکومت کے ایوانوں سے لے کر قانون کے قید خانوں تک میں تبدیلی آ گئی لیکن مسلمانوں کے ساتھ جیسا رویہ کل تھا آج بھی ہے ، جیسا سلوک کانگریس کے زمانے میں تھا بی جے پی کے دور میں بھی ویسا ہی سلوک برتا جا رہا ہے۔ کل بھی مسلمانوں کے ساتھ حکومت اور قانون کا دوہرا معیار تھا اور آج بھی وہی دوہرا معیار مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ 

ان دنوں اعظم خان کی ایک نفرت انگیز تقریر  کو لے کر حکومت اور قانون کا دوہرا معیار دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اعظم خان نے اپنے ایک بیان میں وزیر اعظم نریندر مودی ، وزیر اعلیٰ یوگی آدیتیہ ناتھ اور ایک آئی اے ایس افسر کے خلاف کچھ نفرتی بات کہی تھی جس کو لے کر ہنگامہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اس کے خلاف پوری بھگوا دھاری کی جماعت ایکٹیو ہو جاتی ہے۔ سرکاری ایوانوں میں ہلچل مچ جاتی ہے اور قانون کے رجسٹروں میں آگ لگ جاتی ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے رام پور کی عدالت اعظم خان کو تین سال کی سزا اور دو ہزار کا جرمانہ عائد کر دیتی ہے یہاں تک کہ اسمبلی کی رکنیت بھی ختم کر دی جاتی ہے مگر حکومت اور قانون کا نفرتی بیانات کو لے کر جو سرخیوں میں رہتے ہیں ان پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ حکومت خاموش رہتی ہے۔ عدالتوں میں گہرا سناٹا چھایا رہتا ہے۔ قانون کی کتابیں پلٹ دی جاتی ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو مسلسل نفرت انگیز تقاریر کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں۔ انہیں پرموشن مل جاتی ہے۔ وہ رات و رات ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں اپنا ایک مخصوص مقام بنا لیتے ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ حکومت اور قانون کا رویہ انتہائی شرمناک ہے۔ ایک طرف نفرت انگیز تقاریر کو لے کر چاہے اس کی حقیقت ہو یا نہ ہو مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جاتا ہے۔ شرجیل امام اور عمر خالد جیسے بے قصور نوجوانوں کو جیلوں میں رکھا جاتا ہے اور صدیق کپن جیسے صحافیوں کو بیل ملنے کے باوجود منی لانڈرنگ کیس میں دوبارہ پھنسا کر جیل میں رکھا جاتا ہے تو دوسری طرف سنگیت سوم جیسے نفرت کے پرچارک کو جس نے دادری جا کر ایک مخصوص طبقہ کے خلاف زہر اگلا، جس کی وجہ سے دنگے ہوئے ، جانیں گئیں، لیکن قانون کی نگاہ میں وہ مجرم نہیں تھا اس لئے محض 800 روپے جرمانہ دے کر رہا کر دیا گیا۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ جس کے خلاف بولنے پر اعظم خان کو سزا ملی جب یہ وزیر اعلیٰ بنے تو اپنے خلاف 20000 کیسوں کو رفع دفع کر دیا۔ 2007 میں جو گورکھپور میں دنگے ہوئے کیا اس کے اصل مجرم یوگی آدیتیہ ناتھ کی نفرتی تقریر نہیں تھی جس کی وجہ سے دنگے بھڑکے۔ جان و مال کا نقصان ہوا لیکن یوگی آدیتیہ ناتھ پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ 

انوراگ ٹھاکر کو کون بھول سکتا ہے جس نے " دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو " جیسے نعرے لگائے اور جس کے بعد نوجوان اٹھتے ہیں اور جامعہ و شاہین باغ میں گولی چلاتے ہیں ۔ کیا انوراگ ٹھاکر کا یہ نعرہ نفرت انگیز نہیں تھا؟ لیکن کیا کریں اندھوں اور بہروں کی سرکار ہے انہیں صرف مسلمانوں کا نفرت انگیز ہونا نظر آتا ہے اس کے علاوہ سب محبتوں کے پجاری ہیں۔ کیا کپل مشرا اور پروریش ورما نے نفرت انگیز بیانات نہیں دئے ؟ کیا انہوں نے پولیس کی موجودگی میں یہ نہیں کہا کہ " آج تو ہم جا رہے ہیں کل پولیس بھی ہمیں نہیں روک پائے گی " کیا اس بیان کے بعد دہلی میں دنگے نہیں ہوئے ؟ دوکانیں نہیں جلی ؟ مکانات تباہ نہیں ہوئے ؟ کیا جانیں نہیں گئیں ؟ آخر دہلی پولیس خاموش کیوں ہیں ؟ ان کے خلاف چارج شیٹ کیوں داخل نہیں کی ؟ ان کے خلاف کوئی ایف آئی آر کیوں نہیں؟ 



یتی نرسمہا نند سرسوتی کے تقاریر کیا ہیٹ اسپیچ کے دائرے میں نہیں آتے ؟ جس نے دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کی بات کی ۔ سماجی بائیکاٹ کی بات کی ، جس نے پرتھوی راج چوہان پر الزام لگایا کہ وہ ہندؤں کو مارتا تھا مسلمانوں کو نہیں اور یہاں تک کہہ دیا کہ جو کام پرتھوی راج چوہان کیا کرتا تھا یعنی ہندو بہو بیٹیوں کو اٹھا لیا کرتا تھا یہی کام مودی جی کر رہے ہیں ۔ اگر یہی بات کسی مسلمان نے کی ہوتی تو کچھ سے کچھ ہو گیا ہوتا۔ یہی نرسمہا نند سرسوتی جو بار بار اپنی گندی زبان سے نفرتی بیانات دیتا رہتا ہے ۔ قانون کی دھجیاں اڑاتا رہتا ہے اس کے باوجود ایسے شخص کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن شرجیل امام ، عمر خالد اور صدیق کپن کو بیل تک نہیں ملتی ۔ ہیٹ اسپیچ کو لے کر دیکھا یہ جا رہا ہے کہ اگر وہ حکمران جماعت سے ہے یا سنگھ کی جماعت سے ہے تو ایسے لوگوں پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا بلکہ نئے انڈیا کا نیا فارمولا یہ ہے کہ اگر وہ ہندو مذہب اور اکثریتی سے ہو تو ایکشن چھوڑیے پرموشن کی بات کیجئے والا فارمولا پر عمل کیا جا رہا ہے۔ یہ بھید بھاؤ ہمارے ملک کے لئے اور جمہوریت کے لئے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے اور عدالتوں پر سوالیہ نشان ۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو یاد رکھیئے نہ یہ ملک باقی رہے گا نہ حکومت و اقتدار باقی رہے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اور قانون اس دوہرے رویے کے بجائے انصاف کے تقاضوں پر عمل کریں تاکہ ملک میں خوشحالی آئے۔




Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی