کیا مسلمان سماجی، سیاسی اور معاشی نظام سے دور ہورہے ہیں؟
محمد طاہر ندوی
کسی بھی سماج کی ترقی ، خوشحالی اور معیار زندگی کا اگر جائزہ لینا ہو تو ماہرین اس سماج کو کئی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں جیسے اس سماج کو مادی وسائل حاصل ہیں یا نہیں ، بنیادی تعلیمی سہولیات جیسے سرکاری اسکول اور اسکول کے ساتھ ساتھ بہترین تعلیمی نظام موجود ہے یا نہیں ، اسی طرح طبی امداد ، صحت کی دیکھ ریکھ ، پینے کے لئے صاف ستھرا پانی اور صفائی ستھرائی کی سہولتیں پائی جاتی ہیں یا نہیں ، اسی طرح یہ بھی دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ ، مواصلات اور قرضوں کی سہولتیں فراہم ہیں یا نہیں ۔ اگر کسی سماج کو یہ ساری بنیادی سہولتیں حاصل ہیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ سماج خوشحال ہے اور ترقی کر رہا ہے اور اگر کسی سماج کو یہ بنیادی سہولتیں حاصل نہیں ہیں یا حاصل ہیں لیکن روز افزوں ان سہولیات کی فراہمی و حصول یابی میں کمی آ رہی ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ سماج تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ تنزلی اسے دیگر سماج سے بلکہ اس ملک سے دور کر رہی ہے ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ہندوستان کی کثیر مسلم آبادی والے علاقے ، گاؤں اور دیہاتوں میں تعلیمی حالت بد سے بدتر ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ وہ بنیادی تعلیمی سہولتوں سے محروم ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔ طبی سہولتوں کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو صورت حال ابتر نظر آتی ہے ۔ آسام اور جموں کشمیر کے تقریباً 2000 مسلم اکثریتی علاقے ، مغربی بنگال اور بہار کے 3000 سے زیادہ گاؤں اور اتر پردیش کے 5000 ہزار گاؤں طبی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ ، مواصلاتی نظام اور قرضوں کی حصول یابی کی سہولتوں تک
مسلمانوں کی حالت بڑی تشویشناک ہے ۔
ان رپورٹس کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے جان بوجھ کر مسلمانوں کو سماج سے دور کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو اس کا احساس تک نہیں ہے ۔ جس طرح مسلمانوں کو سماج سے دور کیا گیا اسی طرح محسوس طریقے سے انہیں سیاست سے بھی دور کر دیا گیا ۔ آزادی کے بعد مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا جو خود ایک افسوسناک بات ہے اور اب تو صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ بدتر ہے ۔ رفتہ رفتہ مسلمانوں کی سیاست میں شمولیت کم ہوتی جا رہی ہے ۔ اب کوئی بھی سیاسی جماعت مسلمانوں کو جلدی ٹکٹ دینا نہیں چاہتی ۔ انہیں ساتھ رکھنا نہیں چاہتی اور ساتھ لے کر چلنا بھی نہیں چاہتی ۔ چاہے وہ کانگریس کی جماعت ہو ، سماج وادی کی جماعت ہو ، بہوجن سماج وادی کی جماعت ہو یا پھر عام آدمی کی جماعت ہو اور یہ بات حالیہ الیکشن میں واضح ہو چکی ہے ۔ اور جو مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں ہیں وہ اتنے ٹکڑوں میں منقسم ہیں کہ کچھ کہنا مشکل ہے وہ اپنے وجود کے بقا کی لڑائی لڑی رہی ہیں ۔
مسلمانوں کے سیاسی زوال کی وجہ صرف غیر ہی نہیں ہیں بلکہ اپنوں کی دانستہ یا غیر دانستہ نادانیاں بھی ہیں ۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ کی طرف سے شروع سے یہ کوشش رہی کہ مسلمان سیاست کے بجائے اپنے دین اور مذہب کی طرف توجہ دے اور یہ بات اتنے زور و شور سے کہی گئی کہ بالآخر مسلمانوں نے بھی سیاست کو شجر ممنوعہ تصور کر لیا اور سیاست کے میدان کو باطل طاقتوں کے لئے خالی چھوڑ دیا جس کا خمیازہ آج کے مسلمانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے کہ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ آج موجودہ حکمراں جماعت میں ایک بھی مسلم ایم پی نہیں ہے ۔ جس طرح سماجی اور سیاسی میدان سے مسلمان دور ہوئے ٹھیک اسی طرح معاشی و اقتصادی میدان سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ تعلیمی سرگرمیوں سے کنارہ کشی کیونکہ انسانی سرمائے خاص طور پر تعلیم کی ملکیت نہ صرف روزگار کے مواقع کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس سے روزگار کی نوعیتوں کا بھی تعین ہوتا ہے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ تعلیم کے مثبت اثرات بڑی حد تک بازار ( روزگار ) کے مواقع پر منحصر ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں کی معاشی و اقتصادی میدان میں پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ناخواندگی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی ایسی کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر مسلمان معاشی و اقتصادی میدان میں تشویش کا شکار ہیں جیسے مسلمانوں کا عموماً مزدوروں کے طور پر کام کرنا ، با تنخواہ کاموں میں کم شرکت کرنا ، اعلیٰ تعلیم اور ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری نوکریوں کا نہ ملنا ، سرکاری اداروں ، دفتروں اور محکموں میں مسلمانوں کو لے کر بھید بھاؤ کرنا جس کی وجہ سے ان اداروں میں مسلمانوں کی شرکت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی معاشی و اقتصادی زوال کی ایک وجہ مذہبی منافرت بھی ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے باشندگان وطن کے دلوں میں پیوست کی جا رہی ہے ۔ آئے دن ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں ۔ کبھی میٹ کو لے کر ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں ، کبھی جانوروں کی کھال کو لے کر مسلمانوں کی معیشت پر حملہ آور ہوتے ہیں ، کبھی مسلم سبزی فروشوں کے بائیکاٹ کی بات کرتے ہیں ، کبھی مسلم دوکانداروں کے سوشل بائیکاٹ کو لے کر سڑکوں پر اتر جاتے ہیں ۔ ان ساری وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کی معیشت ، تجارت اور صنعت و حرفت پر گہرا اثر پڑ رہا ہے اور جس کی وجہ سے مسلمانوں کی اقتصادی حالت کمزور ہوتی جا رہی ہے ۔ ان حالات و واقعات اور مشاہدات کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے جیسے بڑی پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کو سماجی ، سیاسی اور معاشی نظام سے دور کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمان اس ملک کے حاشیے سے بھی غائب ہو جائیں ۔ مسلم سماج کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آج ان کی اس حالت کی وجہ کیا ہے ؟ انہیں سماج سے باہر کا راستہ کیوں دکھایا گیا ؟ وہ سیاست سے کیسے اور کیوں دور ہو گئے ؟ ان کی معیشت کیسے کمزور ہو گئی ؟ انہیں تعلیمی میدان سے دور کیا گیا ہے یا خود دور ہو گئے ؟ کیا آپ کے پاس ان سوالوں کے جوابات ہیں ؟ اگر نہیں تو تلاش کیجئے اور اگر ہے تو ان پر عمل کیجئے ۔
ایک تبصرہ شائع کریں