کچھ کرنا ہے تو مسلمانوں کیخلاف نفرت کی مہم ختم کیجئے | محمد طاہر ندوی

 کچھ کرنا ہے تو مسلمانوں کیخلاف نفرت کی مہم ختم کیجئے

محمد طاہر ندوی



سیاست سفر کر رہی ہے اور سفر کے ساتھ ساتھ اپنا مزاج اور رنگ بھی بدل رہی ہے۔ جب انگریزوں کی حکومت تھی تو " تقسیم کرو اور حکومت کرو " کی پالیسی پر عمل ہو رہا تھا پھر رفتہ رفتہ سیاست نے " خوف پیدا کرو اور سیاست کرو " کا مزاج اپنایا لیکن اب جو سیاست چل رہی ہے وہ " نفرت پھیلاؤ اور سیاست کرو " والی پالیسی ہے۔ جس پر بڑی سختی سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اور یہ نفرت کا سیلاب صرف ایک مخصوص طبقہ تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک ہندوستان کا اقلیتی طبقہ اس کا شکار ہے۔ 

اگر یہ کہا جائے کہ نفرت کی اس آندھی میں عالمی پیمانے پر مسلمان طبقہ سب سے زیادہ شکار ہوا ہے اور عالمی پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف جو نفرت پھیلانے کی کوششیں چل رہی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے لے کر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا تک ہر محاذ پر بلکہ ایسا کوئی محاذ اور شعبہ نہیں بچا جہاں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت نہ پھیلائی جا رہی ہو تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا۔ آج آپ ٹویٹر کو دیکھ لیجئے اسلاموفوبیا میں سب سے آگے ہے۔ فیس بک کو دیکھ لیجئے مسلمانوں کے خلاف نفرتی پوسٹ اور ویڈیوز موجود ہیں۔ واٹساپ گروپ کا جائزہ لے لیجئے۔ یوٹیوب پر دیکھ لیجئے آئے دن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ویڈیوز اپلوڈ ہوتے رہتے ہیں۔ ہندی، مراٹھی اور دوسرے اخبارات کو دیکھ لیجئے ایک مخصوص طبقہ کے خلاف بیان بازی اور نفرتی مہم سے بھرا پڑا ہے۔ نیوز چینلوں کو دیکھ لیجئے ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جس دن ہندو مسلم یا صرف مسلمانوں کے خلاف ڈیبیٹ نہ ہوتا ہو۔ ایک مخصوص طبقہ کی حمایت اور دوسرے مخصوص طبقہ کی مخالفت نہ ہوتی ہو۔ ہالی وڈ فلم انڈسٹری سے لے کر بالی وڈ فلم انڈسٹری تک اور تیلگو فلم انڈسٹری سے لے کر ساؤتھ انڈین فلم انڈسٹری تک ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف صرف نفرت ہی نفرت ہے۔ پہلے اس طرح کی فلمیں نہیں بنتی تھیں لیکن اب زیادہ سے زیادہ اس طرح کی فلمیں آ رہی ہیں جس سے باشندگان وطن کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہو اور مسلمانوں کو اچھوت بنانا کر سماج اور معاشرے میں دکھایا جائے تاکہ آنے والی نسلوں میں مسلم مخالف اور نفرتی مہم سفر کر سکے۔ 



مسلم مخالف پروپیگنڈے اور نفرتی مہم کی اگر بات کی جائے تو ہندوستان میں ٹویٹر سب سے بڑا مرکز بنا ہوا ہے جس میں محض تین سال کی مدت میں 3759180 اسلامو فوبک پوسٹ ڈالے گئے ہیں اور یہ انکشاف ترکی کے شہر استنبول میں واقع TRT نے کے صدر دفتر نے کیا ہے اسی طرح ایک دوسری رپورٹ آسٹریلوی ریاست وکٹوریہ میں مسلمانوں کی ایک اعلیٰ تنظیم آئی سی وی نے پیش کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ امریکہ ، برطانیہ اور ہندوستان نے ٹویٹر پر مسلم مخالف پروپیگنڈے میں 86 فیصد حصہ لیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بی جے پی مسلم مخالف تعصب کو ہوا دینے کی ذمہ دار ہے اور بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو اس حد تک اپنا معمول بنا لیا ہے کہ 55.12 فیصد نفرت انگیز ٹویٹس صرف ہندوستان میں ہوئے ہیں۔ 

فیس بک کا استعمال بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تحریر و تقریر پھیلانے کے لئے ہو رہا ہے۔ مغربی ممالک میں اکثر مسلمان فیس بک کی اسلاموفوبیا کا شکار ہو رہے ہیں۔ ملک ہندوستان میں بھی فیس بک کا استعمال نفرتی مہم کے لئے اب بڑھنے لگا ہے۔ گزشتہ سالوں میں ایسے کئی واقعات پیش آئے۔ حیدرآباد میں بی جے پی کے ایک قانون ساز کی آئی ڈی کو فیس بک نے نفرت انگیز تقریر پوسٹ کرنے کی وجہ سے 2020 میں پابندی عائد کر دی تھی۔ اسی طرح ایک ہندو اور متشدد موسیقی کار کی نفرت پر مبنی موسیقی کی وجہ سے اس کی آئی ڈی پر پابندی لگا دی گئی جس نے کہا تھا کہ جو بھی ہندو دیوتا رام کا نام نہ لے اسے ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے۔ ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے جس سے واضح ہوتا ہے کہ فیس بک کا استعمال بھی مسلم مخالف اور نفرتی مہم پھیلانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ 

اسی طرح آج کی سیاست بھی نفرتی پروپیگنڈے کا شکار ہو چکی ہے اور نفرتی زہر سیاست اور سیاست دانوں کی رگوں میں سرایت کر گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے چاہے وزیر اعظم ہوں یا وزیر داخلہ، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ہوں یا آسام کے وزیر اعلیٰ۔ ایم ایل اے ہوں یا ایم پی ، پارٹی کا قومی صدر ہو یا ریاستی صدر یا پھر کارکنان ہر کسی کی زبان زہر آلود ہو چکی ہے۔ 2009 میں این ڈی ٹی وی نے " وی آئی پی نفرت انگیز تقریر" کا سراغ لگانے کے لئے ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کا مقصد وزراء اعلیٰ ، قانون ساز اور بڑے بڑے سیاست دان کی نفرت انگیز تقاریر کا سراغ لگانا تھا جب 2014 میں اس کی ایک رپورٹ سامنے آئی تو پتا چلا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد نفرتی مہم میں کئی گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ 2009 سے 2014 کے دوران " وی آئی پی نفرت انگیز تقاریر" کے صرف 19 واقعات سامنے آئے تھے جو کہ اوسطاً ایک ماہ میں 0.3 واقعات ہوتے ہیں لیکن مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک نفرت انگیز تقاریر کے 388 واقعات ہو چکے ہیں جو کہ اوسطاً ایک ماہ میں 3.7 واقعات ہوتے ہیں۔ این ڈی ٹی وی کی اس رپورٹ کے مطابق یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سیاست بھی اسلاموفوبیا کا ایک بہت بڑا مرکز بن بیٹھا ہے جہاں نفرتوں کے سودا گر نفرتوں کی خرید وفروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ 

نفرت کی اس مہم کو ختم کرنا ضروری ہے اور یہ کام سب کو مل کر کرنا ہوگا کسی فرد واحد کے ذریعے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ حکومت نفرت کی بجائے محبت کو فروغ دے اور حوصلہ افزائی کرے۔ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں بیٹھ کر جو لوگ نفرت اور تقسیم کی بات کر رہے ہیں ان پر لگام کسنا حکومت کا کام ہے۔ قانون بھی نفرت کی بجائے انصاف کی بالا دستی پر عمل کرے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ مذہبی تعصبات ، ذات پات اور برادری کی تمام بندشوں سے اوپر اٹھ کر پیار و محبت اور عدل و مساوات کا پیغام عام کرے۔ حزبِ مخالف جماعتوں کو بھی چاہئے کہ نفرت کی اس سیلاب کو روکنے کے لئے وہ بھی اپنا کردار ادا کریں اور ضرورت پڑنے پر اختلاف کے باوجود اتحاد و اتفاق پر عمل کرے تاکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی اس مہم ختم کیا جا سکے۔ 



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی