رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سیاست دان
محمد طاہر ندوی
سب ایڈیٹر ہفت روزہ ملی بصیرت ممبئی
اسلام صرف نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ کا نام نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی صرف عبادات و ریاضت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آپ نے دنیا کو عبادت و ریاضت کے ساتھ معیشت و تجارت ، سیاست و حکومت ، انتظام و انصرام ، معاملات و لین دین اور قومی و بین الاقوامی تعلقات کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ انسانیت کو ظلم و ستم سے کیسے بچایا جائے، عدل و انصاف کا نظام کیسے قائم کیا جائے، امن و سکون کا قیام کیسے ہو ، عوام اور حکمرانوں کے مابین کیسے تعلقات ہونے چاہئے ان تمام باتوں کو اپنے ارشادات و فرمودات کے ذریعے دنیا کو بتایا اور سکھایا ہے بلکہ اپنے عمل کے ذریعے امت کو کرکے دکھایا ہے۔
جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو آپ ایک کامیاب سیاسی بصیرت رکھنے والے رہنما اور لیڈر نظر آتے ہیں۔ آپ نے ریاست مدینہ قائم کی جو سیاست کا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے۔ مدینہ کے احوال جاننے کے لئے حضرت مصعب ابن عمیر رضی الله عنہ کو دعوتی مہم میں بھیجا تاکہ دعوت کے ذریعے مدینہ کے حالات کا جائزہ لیا جا سکے اور ایک اسلامی ریاست کا وجود ہو سکے۔ مدینے کی ریاست دعوت کے ذریعے اور ریاست مکہ جہاد کے ذریعے قائم ہوئی تھی کیوں کہ مشرکین مکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اس کے نتیجے میں مکہ میں اسلامی ریاست وجود میں آئی۔
سیاست کا دوسرا اہم مقصد ہوتا ہے ریاست کا استحکام تاکہ اندرونی و بیرونی دشمنوں سے ریاست کو بچایا جائے۔ اس کے اندر کئی مسائل ہوتے ہیں مالی مسائل ، طبی مسائل اور امن و سلامتی کے مسائل۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست کو مستحکم کرنے کے لئے مہاجر و انصار کے مابین مواخات فرمایا تاکہ ان کے درمیان محبت و مودت پروان چڑھے اور ان کے رشتے کو مضبوطی ملے تو بھائی چارے کے ذریعے سے آبادی کا بوجھ کم کیا ۔ مدینے کے اندر جو اچانک آبادی بڑھ گئی تھی اور وسائل کی جو کمی پیدا ہو گئی تھی اسے حل کرنے کے لئے مختلف طریقے تجویز فرمایا۔ اسی طرح مدینے میں جو یہودی آباد تھے ان کو میثاق مدینہ کے ذریعے قابو کیا جس میں یہ طے پایا کہ اگر دشمن ہم پر حملہ کرے تو آپ ہماری مدد کریں گے اور اگر دشمن تم پر حملہ کرے تو ہم تمہاری مدد کو آئیں گے اور تمہارا ساتھ دیں گے۔
عوامی مسائل کے حل کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکام کو عوام کا خادم بنا دیا اور عوام کو اس بات کا پابند بنایا کہ اگر تم پر حبشی غلام کو بھی حاکم یا امیر بنا دیا جائے تو اس کی اطاعت کرنا۔ اوپر والے کو خدمت کا اور نیچے والے کو اطاعت کا حکم دیا اور جو اس کی خلاف ورزی کرتے تھے انہیں حدود و تعزیرات کے ذریعے قابو میں کیا جاتا تھا تو اس طرح آپ نے عوامی مسائل کو حل فرمایا۔
ایک ریاست کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے بین الاقوامی تعلقات کو مستحکم کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے کے بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط لکھ کر بین الاقوامی تعلقات کو مستحکم فرمایا اسی طرح آپ کے پاس بعض قبائل کے وفود آتے ان میں سے کچھ تو اسلام لے آتے اور کچھ آپ سے معاہدہ کرکے چلے جاتے اسی طرح آپ نے بنو خزاعہ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور یہ پیغام دیا کہ غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ ہمیشہ جنگ کی حالت میں رہنے کی بجائے ان کے ساتھ معاہدے بھی ہو سکتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ نے دنیا کو سیاست کا ایک صاف ستھرا نظام دیا جس کے ذریعے ریاست کی بقا ، عوام کی خوش حالی اور امن و سلامتی کی جانب بہترین رہنمائی کی جس سے پتا چلتا ہے کہ آپ ایک بہترین سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے کامیاب رہنما اور لیڈر تھے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ اسلام میں سیاست و حکومت اور سیادت و قیادت کی اتنی واضح ہدایات و رہنمائی کے باوجود گذشتہ کئی دہائیوں سے یہ بات چلی آ رہی ہے کہ سیاست شجر ممنوعہ ہے اور علماء کو چاہئے کہ اس سے کنارہ کشی اختیار کریں اور یہ بات بھی علماء کے حلقے سے اٹھتی رہی ہے بلکہ باضابطہ منبر و محراب سے یہ آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ علماء کا سیاست و قیادت سے کیا تعلق یہ کام اہل دنیا کا وہ جانیں اور ان کا کام جانیں جبکہ حقیقت یہی ہے کہ آج علماء جس شعبے سے الگ ہوئے ہیں ان شعبوں میں لادینیت اور لامذہبیت نے پنجے گاڑ دئیے ہیں اور ان شعبوں میں باطل نے اپنا قبضہ جما رکھا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ آج کے علماء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی کا مطالعہ کرتے اور امت کو اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرنے کی کوشش کرتے۔
ایک تبصرہ شائع کریں