میرا قلم میری زباں | محمد طاہر ندوی

 میرا قلم میری زباں

محمد طاہر ندوی



اس وقت سوشل میڈیا میں خواتین کا مسجد میں داخلے کے مسئلے کو لے کر طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ کیا علماء کیا طلباء اور کیا فضلاء ایک ہی حمام میں سب ننگے کھڑے ہیں۔ ایک دینی مسئلے کو لے کر مخالفت کی آڑ میں اپنے دل کی بھڑاس نکالی جا رہی ہے اور اس کے لئے جو زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ نہایت ہی شرمناک ہے اور بیہودہ طریقہ ہے۔ ایسی زبان تو گلی کے آوارہ اور بدمعاش قسم کے نوجوان بھی استعمال نہیں کرتے بلکہ فاحشہ خانہ کی عورتیں بھی ایسی زبان استعمال نہیں کرتی ہیں۔ خواتین کا مسجد میں جانا جائز ہے یا نہیں یہ مسئلہ شروع سے مختلف فیہ رہا ہے۔ مولانا الیاس احمد نعمانی اپنی کتاب " مساجد میں خواتین کی آمد ، ایک تاریخی و فقہی مطالعہ " میں لکھتے ہیں کہ متعدد احادیث کی بنیاد پر خواتین کے لیے گھر میں نماز ادا کرنا سب سے بہتر ہے لیکن اس کے باوجود صحابیات مسجد آتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکیر نہیں فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو خاص کر تاکید کرتے تھے کہ اگر تم سے تمہاری عورتیں مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں اجازت دے دیا کرو یہاں تک کہ عیدین کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت تاکید کے ساتھ خواتین کی شرکت کا حکم دیتے تھے اور یہ بھی کہتے کہ اگر کسی کے پاس جلباب ( اوڑھنی ) نہ ہو تو جس کے پاس ہو اسے دے دے۔ ان روایات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خواتین کا مسجد میں داخلہ کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خواتین کے لئے الگ انتظامات کئے جائیں جیساکہ دور نبوت میں تھا۔ انہیں یہ تاکید کی جائے کہ خوشبو لگا کر اور زیب و زینت اختیار کرکے مسجد نہ آئیں یا کوئی ایسی چیز استعمال نہ کریں یا ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے فتنے کا اندیشہ ہو۔ آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے جس مسئلے کی طرف ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی ، مولانا الیاس احمد نعمانی ، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی یا معروف صحافی سمیع اللہ خان نے توجہ دلائی ہے اسے دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ آج کے دور میں خواتین کو مسجد میں داخلے کی اجازت ملنی چاہئے کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے درمیان جو مسائل مختلف فیہ ہیں انہیں مسائل کو سنگھ ، عدالتوں کے ذریعے یا حکومتی مداخلت کے ذریعے ہم پر مسلط کر رہے ہیں یا پھر ان مسائل کے ذریعے مسلم خواتین کے اندر شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہماری تنظیمیں یا جماعتیں سنگھی طاقتوں کے آگے بے بس اور مجبور ہیں۔ ان میں مقابلہ کرنے یا قانونی چارہ جوئی کی طاقت نہیں رہی وہ حکومت کے آگے اپنا ہتھیار ڈال چکی ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ امت کے علماء ، فقہاء اور جماعتوں کے ذمہ داران باہم گفت و شنید کے ذریعے اس مسئلے کو قبل از وقت حل کر لیا جائے اور اس چور دروازے کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جائے جہاں سے سنگھ کی پیداوار حکمران جماعتیں اسلام کے اندر رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا ؟ 




Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی