میرا قلم میری زباں
موجودہ زمانے میں القابات کو لے کر اتنی بے اعتدالی بڑھ گئی ہے کہ کبھی کبھی انسان شک و شبہ میں پڑ جاتا ہے کہ اصل نام کہاں ہے اور کس کے بارے میں کہا جا رہا ہے جبکہ ہمارے اسلاف میں یہ طریقہ ناپسند تصور کیا جاتا تھا اور بجائے بھاری بھرکم القاب کے خود کو کسی کاروبار ، محلہ ، قبیلہ یا گاؤں کی طرف منسوب کیا کرتے تھے جیسے ابوبکر جصاص، امام قدوری ، امام طحاوی اور امام کرخی وغیرہ۔ امام نووی کو کون نہیں جانتا مشہور شافعی عالم دین ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، بڑی بڑی اور قیمتی کتابیں لکھیں ، ابن حجر عسقلانی جیسی شخصیت بھی آپ کی کتابوں سے استفادہ کرتے اور اپنی کتابوں میں آپ کو حوالہ کے طور پر بیان کرتے لیکن اس کے باوجود کسی نے امام نووی کو " محی الدین " کے لقب سے پکارا تو سخت برہم ہو گئے اور کہا میں نے کسی کو اجازت نہیں دی کہ مجھے اس لقب سے پکارے جبکہ آپ کی شخصیت اس کی اہل تھی کہ آپ کو " محی الدین " کہہ کر پکارا جائے لیکن آپ نے اسے ناپسند فرمایا۔ اسی طرح مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ کے بارے لکھا ہے کہ جلسے میں آپ کے لئے بڑے بڑے القاب استعمال کئے گئے تو آپ نے اپنی تقریر شروع کی تو اپنی اتنی مذمت کی کہ سامعین پانی پانی ہو گئے۔ ایک شخص کو دیکھا کہ مولوی احمد رضا خان بریلوی کے لئے مجدد زمانۂ حاضرہ و سابقہ، صاحب حجۃ قاہرہ، شیخ الاسلام و المسلمین، علامہ و مفتی فلاں ابن فلاں خان محمدی، حنفی، قادری وغیرہ ایسے ایسے الفاظ و القاب استعمال کئے کہ میں شک میں پڑ گیا کہ یہ کس کے بارے کہا جا رہا ہے۔ یہ بات صرف بریلوی مکتب فکر کے علماء کے اندر ہے ایسا کہنا ظلم ہوگا ہمارے اندر بھی یہ بیماری پھیل گئی ہے اور ہمارے علماء بھی اپنے قائدین و مصلحین کے لئے ایسے الفاظ و القابات استعمال کرتے ہیں کہ پڑھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ الفاظ و القابات کے تعلق سے ہم کتنا بے اعتدالی کے شکار ہیں جبکہ ہمارے اسلاف و اکابر اخلاص و للہیت کے خوگر اور ریا کاری سے کوسوں دور ہوا کرتے تھے ان کے نزدیک کام اہم ہوتا تھا نام کی ضرورت ہی نہیں تھی اور آج کے علماء کے نزدیک نام القاب ہی شاہد اہم ہے اور کام کی ضرورت نہیں۔
درست
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں