کائنات کا ذرہ ذرہ بولے گا آمد آقا صل علیٰ
محمد طاہر ندوی
اس دنیا میں ان گنت مذاہب ہیں۔ ان میں توحید پرست بھی ہیں، بت پرست بھی ہیں، آتش پرست بھی ہیں، شمس و قمر کے پجاری بھی ہیں۔ ان مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہیں اور اسلام ان تمام مذاہب میں سب سے کم عمر ہے۔ ممکن ہے اسلام اپنے ماننے والوں کے حوالے سے سب سے بڑا مذہب نہ ہو مگر یہ ایک زندہ اور مسلسل ترقی کرتا ہوا مذہب ہے ۔ دنیا کے تمام مذاہب اور مشرک عناصر اسلام کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے باوجود اسلام، دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب بنتا جا رہا ہے۔
دنیا کے مختلف مذاہب کی تاریخ میں یہ ایک ضابطہ ہے کہ ہر شخص اپنے مذہب کے بانی کی زندگی کے حوالے بہت کم واقفیت رکھتا ہے لیکن پوری کائنات میں نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات واحد ذات ہے جن پر یہ قاعدہ اور ضابطہ لاگو نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے حوالے سے چشم دید حالات و واقعات پر کتابیں بھری پڑی ہیں۔ جن میں آپ کی حیات طیبہ کے بارے میں چھوٹی سے چھوٹی بات بھی نقل کردی گئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی ہی میں عظیم ترین کامیابیاں حاصل کیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد لوگوں سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا تو اس وقت اس سے کئی گنا زیادہ لوگ اپنے گھروں میں تھے ۔
یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی اسلام کو زبردست کامیابی و کامرانی نصیب ہوئی مگر آپ کی حیات طیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ارشادات کو جو کامیابی حاصل ہوئی تاریخ انسانی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جہاں تک آپ کی تعلیمات کا تعلق ہے تو آج سے چودہ سو سال پہلے جس طرح آپ نماز پڑھا کرتے تھے آج مسلمان اسی طریقے پر نماز پڑھتے ہیں۔ جس طرح آپ نے حج کیا تھا، چودہ سو سال بعد آج کا مسلمان اگر حج پر جاتا ہے تو اسی طریقے پر کرتا ہے۔جس انداز میں آپ روزہ رکھا کرتے تھے چودہ صدی بعد بھی پوری دنیا کے لوگ اسی طریقے پر روزہ رکھتے ہیں۔ جو دین و شریعت آپ لے کر آئے تھے اس کی آفاقیت کا یہ عالم ہے کہ چودہ صدی گزرنے کے بعد بھی دور جدید کے چیلنجوں اور تقاضوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایک طرف دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے دین میں وقت اور حالات کے پیش نظر ترمیم و تنسیخ سے کام لے رہے ہیں تو دوسری طرف چودہ صدی کے بعد بھی مسلم مبلغین و مصلحین بیک زبان اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و احکامات پر مکمل طور پر عمل کیا جائے اسی میں ہماری دونوں جہاں کی کامیابی و کامرانی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر دنیا کی مختلف زبانوں میں ہزاروں کتابیں لکھی گئیں۔ ان کتابوں کے لکھاریوں میں دوست و دشمن دونوں ہیں۔ دنیا کے تمام مصنفین اس بات کو متفقہ طور پر قبول کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سب سے عظیم انسان ہیں اور جن لوگوں نے آپ کے بارے فرضی اور من گھڑت باتیں لکھیں۔ آپ کی تعلیمات و ارشادات کو مسخ کرنے کی کوششیں کیں وہ بھی درحقیقت بالواسطہ طور پر آپ کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں کیوں کہ وہ جانتے کہ اگر انہوں نے اسلام کی صحیح تصویر پیش کر دی تو ان کے ہم مذہب " گمراہ " ہو جائیں گے اسی لئے وہ آپ کے بارے میں فرضی اور من گھڑت قصے اور کہانیاں بتاتے رہتے ہیں۔
یہ بات بھی اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے خلاف جدید مغرب نے بے انتہا مادی وسائل ، اخبارات و رسائل ، لا تعداد کتابوں کی نشر و اشاعت ، ریڈیو اور ٹی وی کی نشر یات کا استعمال کیا۔لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ملک کے عوام کو اسلام کے سائے رحمت میں پناہ لینے سے نہیں روک سکے۔ ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد صرف 30 سال کے عرصہ کے درمیان انگلستان میں سو سے زیادہ مساجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ جرمنی اور فرانس میں بھی یہی صورت حال ہے۔ سفید فام امریکیوں میں بھی مشرف بہ اسلام ہونے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں استنبول میں لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں جبکہ استنبول کے مقابلے اناطولیہ میں مذہبی رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ارشادات کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ دوسرے مذاہب کے بانیوں کی نسبت آپ کی تعلیمات کا اثر آپ کے پیروں کاروں کی ذاتی زندگیوں اور ذاتی رویوں پر زیادہ گہرے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے 1932 میں انگلستان کی ایک مسجد میں ایک انگریز مؤذن کو دیکھا ۔ اس نے بڑے اعجاز و افتخار کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حبشی مؤذن حضرت بلال رضی الله عنہ کے نام کے حوالے سے اپنا نام بلال رکھا ہوا تھا۔ اور آج بھی لوگ اپنے نام کے ساتھ " محمد" لکھنا فخر سمجھتے ہیں اور اپنی اولادوں کے نام آپ کے صحابہ کے نام پر رکھنا فخر سمجھتے ہیں ۔
دوسرے مذاہب کے بانیوں نے ایک دوسرے پر بعض انسانی خوبیوں میں اگر سبقت حاصل کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر شعبوں میں سبقت اور فضیلت حاصل کی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم اور اعلی صفات کے حامل قانون ساز تھے۔ آپ ایک عظیم منتظم تھے۔ آپ نے ایک عظیم سلطنت کو وجود بخشا اور خود ہی اس کے منتظم اعلیٰ تھے۔ آپ ایک عظیم سپہ سالار لشکر تھے۔ آپ نے اپنے سے تین سے پندرہ گنا زیادہ تعداد کی فوج کو واضح شکست دی۔ آپ کی تعلیمات میں مبالغہ کا کوئی عنصر نہیں تھا۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر کوئی تمہارے دائیں رخسار پر تھپڑ مارے تو بایاں رخسار بھی اس کے سامنے کر دو بلکہ آپ نے کہا کہ اگر تم اپنا جائز بدلہ لو تو یہ صحیح ہے لیکن اگر تم معاف کر دو تو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر ہے۔ اس طرح آپ کی یہ تعلیمات عام آدمی کو گناہ کرنے سے روکتی ہیں اور انسان کو مناسب حدود کے اندر رکھتی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی تعلیمات " بندہ اللہ کا ہے اور اللہ بندے کا ہے " کا درس دیتی ہے۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اور بندے کا براہ راست تعلق اور رابطہ قائم کرا دیا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں