معاشرے میں سفر کرتی جہالت | محمد طاہر ندوی

 معاشرے میں سفر کرتی جہالت

محمد طاہر ندوی



 اردو کا ایک مشہور مقولہ ہے " سفر وسیلہ ظفر " کہ سفر کامیابی کا وسیلہ ہے سفر کے ذریعے انسان کامیابی کی منزلیں طے کرتا ہے۔ سفر کے ذریعے ہی اس کی فکریں پروان چڑھتی ہیں۔ نئے نئے تجربات سے سامنا ہوتا ہے اور وہ انسان ان تجربات سے نئی نئی چیزیں سیکھتا ہے اسی طرح علم و جہل بھی انسان کی کامیابی اور ناکامی کا سبب ہوتے ہیں اور یہ دونوں بھی انسان کے ساتھ بلکہ اس کی نسلوں میں سفر کرتے ہیں اگر علم سفر کرے تو نسلیں آزاد پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی فکریں ہر طرح کی بندشوں سے آزاد ہوتی ہیں۔ اس کی کامیابی یقینی ہوتی ہے اور اگر جہالت سفر کرے تو نسلیں غلام پیدا ہوتی ہیں اور غلامی کا طوق صرف اس کے ہاتھوں یا پیروں پر نہیں بلکہ اس کی قوت گویائی ، قوت سماعت ، قوت بصارت اور قوت فکر و عمل پر بھی ڈال دیا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ نہایت شرمندگی ناکامی اور نامرادی ہوتا ہے۔ 


جب نسلوں میں تعلیم سفر کرتی ہے تو اس کے ذریعے بچوں اور نوجوانوں کی تجزیاتی اور عملی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان پر نئے نئے مواقع روشن ہوتے ہیں جس سے انفرادی اور اجتماعی کامیابیوں کی راہیں کھلتی ہیں۔ تعلیم کے ذریعے اس کی صرف کارکردگی ہی نہیں بڑھتی بلکہ جمہوری شرکت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ صحت بہتر ہوتی ہے اور معیار زندگی بھی بلند ہوتا ہے اور جہالت کی وجہ سے اس پر کامیابی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ نئی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور معیار زندگی بھی سطحی اور بدتر ہوتی ہے ۔


ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ایک ایسی قوم جس کی ابتدا " اقرأ " سے ہوئی اور حصول علم کی ہمت افزائی کی گئی۔ قرآن و سنت میں رہنمائی کی گئی۔ جس کے لئے لوگوں نے صحراؤں کے خاک چھانے۔ جنگلوں کی پرخار وادیوں کا سفر کیا اور بڑے کارنامے انجام دیئے ۔بڑے بڑے کتب خانے قائم کئے اور کتابوں کے ذخیرے جمع کر دئے آج ایسی کیا بات ہوئی کہ اس قوم کا نصف حصہ( 42.7 ) ناخواندہ ہے جبکہ دیگر اقوام پڑھ لکھ کر اور جہالت کی تاریکی کو دور کرکے آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمارے ملک میں جین آباد ہیں جو آبادی کے اعتبار سے بہت ہی کم ہیں لیکن شرح خواندگی میں سب سے آگے ہیں 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق جین 86.4 فیصد پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج ملک بھر میں یہ قوم ہر جگہ سر فہرست نظر آتی ہے۔ اسی طرح سے آپ دیکھیں کہ ہندوؤں میں بھی 64 فیصد لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ سکھوں میں بھی پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد 68 فیصد ہے۔ بدھسٹ میں 72 فیصد لوگ پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور عیسائیت میں دیکھا جائے تو شرح خواندگی 75 فیصد ہے لیکن مسلمانوں میں شرح خواندگی سب سے کم یعنی کل آبادی کا صرف 58 فیصدی یعنی نصف آبادی ابھی بھی تعلیم جیسی ضرورت سے محروم ہیں۔  


مسلمان تعلیم سے دور ہوئے یا دور کر دئے گئے یہ بہت اہم سوال ہے اور اس کا جواب دیا جانا چاہئے کیوں کہ مسلمان دینی و عصری تعلیم دونوں کے اعتبار سے آج حاشیہ پر ہے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم گھرانے کے بچے مدارس کا رخ کرتے ہیں اور زیادہ تر مدارس سرکاری اداروں سے ملحق نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی پڑھے لکھے ہونے کے باوجود سرکار کی نظر میں ناخواندہ شمار کر لئے جاتے ہیں لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مدارس کا رخ کرنے والے صرف چار فیصدی ہیں اور سرکاری اداروں میں جانے والے 66 فیصدی جبکہ پرائیویٹ اداروں میں جانے والے 30 فیصدی ہیں لیکن اس کے باوجود مسلم بچے تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ مسلمانوں کی ناخواندگی کی ایک وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ مسلمان مغربی تعلیم کو حرام سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تعلیم ان کے بچوں و بچیوں کو دین سے کر دے گی جس کی وجہ سے ان کے بچے اسکول و کالج اور یونیورسٹی کا رخ نہیں کرتے ہیں۔ ایک دوسری وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ہر گھر میں زیادہ سے زیادہ بچوں کی پیدائش جس کی وجہ سے وہ اپنے ہر بچے کو تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھتے ہیں اور روز افزوں ان میں نا خواندگی کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ 


حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم کی طرف اتنی توجہ نہیں دی جتنی توجہ دینی چاہئے تھی۔ مسلمانوں کے بچے جو چھ سال سے چودہ سال کی عمر کے ہیں تقریباً 25 فیصد ایسے ہیں جنہوں نے یا تو کسی اسکول میں داخلہ ہی نہیں لیا یا اپنی تعلیم درمیان میں ہی چھوڑ دی اسی لئے دیگر تمام طبقوں کے مقابلے میں مسلمانوں میں ترک تعلیم کی شرح ابتدائی مڈل اور ہائر سیکنڈری سطحوں پر سب سے زیادہ ہے۔ کچھ معیاری قسم کے اسکولوں کا قیام ہوا تھا اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ تعلیم کی فراہمی کی دشواریاں کم ہوں گی اور ان اسکولوں میں مسلمانوں کی حصہ داری اچھی خاصی ہوگی لیکن اعداد و شمار کے مطابق نتیجہ اطمینان بخش نہیں ہے ۔ 


آج ضروری ہو گیا ہے کہ جہالت اور گمراہی کے خاتمے کے لئے فروغ علم کی تحریک شروع کی جائے۔ امت مسلمہ کو اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے علم و عمل کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ عصر حاضر کے چیلنجوں کا مقابلہ تعلیم میں کمال پیدا کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔ دور حاضر میں مسلمانوں کی پستی کا واحد علاج اعلیٰ تعلیم کا حصول ہے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے معاشرے کے ہر فرد کو آگے آنا ہوگا اور آگے آکر گھر گھر اور محلہ در محلہ جا کر ایک تحریک شروع کرنی ہوگی کہ گھر کا ہر فرد بنیادی  تعلیم سے آراستہ ہو ۔ اسکولنگ کا نظام بھی بہتر ہو۔ اور ساتھ ہی ہمیں اپنے دین کو بھی باقی رکھنا ہے اس کے لئے مکاتب و مدارس کا نظام بھی بہتر بنانا ہوگا تاکہ نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت ہو سکے۔




 





Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی