کعبے میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر
محمد طاہر ندوی
سب ایڈیٹر ہفت روزہ ملی بصیرت ممبئی
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کا دور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا دور تھا۔ کیچڑ اچھالنے کا مشغلہ عام تھا۔ کسی پر کفر کے فتوے لگ رہے تو کسی پر نفاق کے ۔ کوئی مذہب کا ٹھیکیدار بنا تھا تو کوئی مذہب کا علمبردار ۔ کوئی مذہب کا خالق تھا تو کوئی مذہب کا اجارہ دار۔ کہیں اپنے مسلک کو لے کر جمود و تعطل کا شکار ہو کر اپنے مسلک کو حق بجانب سمجھے بیٹھا تھا تو کوئی اپنے مسلک و مشرب پر، خدا کی طرف سے آخری وحی سمجھنے کی وجہ سے جمود کا شکار تھا الغرض ہر کوئی خود کو راہ حق کا مسافر اور دوسروں کو معتوب و مغضوب اور باطل کے راستے پر چلنے والا گردانا جا رہا تھا ۔
مسلکی لڑائی اتنے زوروں پر تھی کہ ہر کوئی کفر کی دوکان کھول کر فتوے فروخت کر رہا تھا۔ دیوبندی، بریلوی علماء کو تو بریلوی علماء دیوبند کو کافر کہہ رہے تھے ۔ صوفیاء و اولیاء پر کیچڑ اچھالا جا رہا تھا۔ بزرگانِ دین کو مطعون بنا کر ان کی کردار کشی کی جا رہی تھی۔ جماعتوں پر کفر کے فتوے لگ رہے تھے۔ شخصیت کو سرعام اچھالا جا رہا تھا ۔ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کو ڈنکے کی چوٹ پر کافر کہا گیا ۔ مولانا قاسم نانوتوی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی پر کفر اور گستاخ رسول کے فتوے لگے۔ علامہ شبلی نعمانی ، سید سلیمان ندوی اور مولانا فراہی جیسی شخصیت کو بھی نہیں بخشا گیا یہاں تک کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر بھی کیچڑ اچھالے گئے۔
اب مسلکی تعصب کی آگ یوروپ جیسے ملکوں میں بھی پھیلنے لگی ہے اب انگلینڈ جیسے ملکوں میں باضابطہ مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی کافر ہیں ایسے کاغذوں پر دستخط کروائے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر اکرم ندوی ( آکسفورڈ ) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ انگلینڈ کی ایک مسجد میں امامت کی جگہ خالی تھی کمیٹی والوں نے میرے ایک دوست کی خدمات حاصل کی ، انہوں نے نمازیں پڑھائیں ، تقریریں کیں اور بچوں کو بھی پڑھایا جب کمیٹی کو ان کی خدمات نے متاثر کیا تو شوریٰ کے لوگوں نے کہا آپ امامت کے لئے درخواست ڈال دیں چنانچہ جب انہوں نے درخواست ڈالدی اور سارے مراحل کو بحسن و خوبی انجام دے دیا تو آخر میں ان سے ایک کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا گیا جب انہوں نے دیکھا کہ کاغذ پر " رشید احمد گنگوہی اور اشرف علی تھانوی کافر ہیں " تو دستخط کرنے سے انکار کر دیا تو صرف اس وجہ سے انہیں نا اہل قرار دے دیا گیا ۔
اب نکاح جیسے موقع پر بھی ایسے کئی واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ نکاح پڑھانے والا سنی عالم دولہے سے کہتا کہ کہو میں دیگر تمام غلط عقائد سے توبہ کرتا ہوں ایسا ہی ایک واقعہ میرے موجودگی میں پیش آیا کہ بڑبل ( اندیشہ ) میں ایک نکاح میں شرکت کا موقع ملا تو دیکھا نکاح خواں کلمہ ، استغفار اور گناہوں سے توبہ کے ساتھ ساتھ دولہے سے دیگر تمام غلط عقائد سے بھی توبہ کرایا گیا۔ اب دولہا بیچارہ کرتا کیا نہ کرتا اس کی حالت تو ایسی ہوتی ہے کہ کاٹو تو خون تک نہ نکلے ۔ایسے کئی واقعات آج دیکھنے کو مل رہے ہیں بلکہ صرف مسلکی اختلاف اور تعصب کی وجہ سے بارات واپس چلی جاتی ہے۔
یہ مسلکی منافرت صرف بریلوی علماء میں موجود ہے یہ کہنا غلط ہوگا بلکہ یہ آگ مسلک دیوبند کے حامل علماء میں بھی لگی ہے اور جس طرح سے آج یہ آگ جل رہی ماضی میں بھی نا جانے کتنی شخصیتوں کو جلا کر خاکستر کر دیا ہے۔ ایک مرتبہ مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ سے سر سید احمد خان کے خلاف کفر کے فتوے پر دستخط کرنے کو کہا گیا آپ نے کہا پہلے میں تحقیق کروں گا چنانچہ آپ نے کچھ سوالات لکھ کر سر سید کے پاس بھیجے کہ خدا پر آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ خداوند تعالیٰ ازلی ابدی مالک و صانع تمام کائنات ہے۔ دوسرا سوال تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے ؟ نے کہا کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ۔ تیسرا اور آخری سوال تھا کہ قیامت کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ قیامت برحق ہے ۔ اس کے بعد مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ ایسے شخص کے خلاف دستخط کرانا چاہتے ہو جو پکا مسلمان ہے؟
مسلکی تعصب نے ملت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے ۔ آج بڑی آسانی سے بغیر کسی تحقیق اور دلیل قطعی کے دوسرے پر کفر اور گمراہی کے فتوے لگ رہے ہیں۔ امت کو توڑنے اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ امت کو جوڑنا چاہئے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہب کی حفاظت کی جائے اور ملت کو جوڑا جائے تاکہ مسلمان بحیثیت امت احساس کمتری اور کمزوری سے باہر نکلے اور مل کر حالات کا سامنا کرے۔
ایک تبصرہ شائع کریں