کیا بابری کی طرح گیان واپی کا فیصلہ بھی ہندوؤں کے حق میں ہوگا ؟
محمد طاہر ندوی
ہندوستان کی تاریخ میں روشن اور تابناک دور کون سا تھا یہ کہنا اب مشکل ہو گیا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ہندوستان کی تاریخ میں تاریک دور کون سا تھا اور ہے ، تو اس میں بلا شبہ ؛ بابری مسجد میں مورتیاں رکھنے سے لے کر گیان واپی مسجد کیس میں مسلم فریق کی عرضی مسترد کرکے ہندو فریق کی عرضی قبول کرتے ہوئے کیس کو قابل سماعت بتانے تک کے درمیانی دور کا نام لیا اور بتایا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں 6 دسمبر 1992 کی تاریخ جمہوریت کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ تھا جس دن بابری مسجد کو دن کے اجالے میں اور لاکھوں افراد کی موجودگی میں شہید کر دیا گیا پھر اس کے بعد جمہوریت کے منہ پر مزید سیاہی پوتی گئی جب لکھنو کی ایک خصوصی سی بی آئی کی عدالت نے بابری مسجد انہدام کیس کے تمام ملزمان کو یہ کہتے ہوئے بری کر دیا تھا کہ مسجد کو منہدم کرنے کی کوئی سازش نہیں ہوئی تھی یہ دن بھی جمہوریت کی موت کا دن تھا جو بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا تھا ۔ پھر ہندوستان کی سیاہ تاریخ میں ایک ایسا بھی دن آیا جس نے عقل والوں کو حیران کر دیا کہ بابری مسجد کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اور 1949 کی رات جو مورتیاں رکھی گئیں تھیں اسے غیر قانونی مانتے ہوئے اور 1992 میں مسجد کی شہادت کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دینے کے باوجود 9 نومبر 2019 کو اسی سپریم کورٹ نے ایک فریق کو خوش کرنے کے لئے مندر کے حق میں آستھا اور عقیدت کی بنیاد پر فیصلہ سنا یا وہ دن جمہوریت کے جنازے کا دن تھا جو بڑے دھوم دھام سے نکالا گیا تھا ۔
بابری مسجد کا جب فیصلہ آیا تھا تو یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب ملک میں کسی اور مذہبی مقام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی لیکن یہ خام خیالی تھی کیوں کہ اسی دن اتر پردیش کی ایک عدالت میں متھرا کی شاہی عیدگاہ والی مسجد کا تنازع اٹھایا گیا ۔ کاشی متھرا باقی ہے کا نعرہ دیا گیا ۔ ایودھیا کے بعد اب متھرا باقی ہے اور مندر بنانے کے لئے مسجد کو ہٹانا پڑے گا جیسی اشتعال انگیز باتیں کہی گئیں جبکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ صاف کر دیا تھا کہ 1991 پلیس آف ورشپ ایکٹ کے تحت اب کسی مذہبی مقام کو تبدیل نہیں کیا جائے گا بلکہ 15 اگست 1947 کو اس کی جو حالت اور شکل تھی اسے اسی شکل پر رکھا جائے گا ۔ شاہی عید گاہ مسجد کے تعلق سے جب درخواست دی گئی تھی اور مسجد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ جس زمین پر مسجد تعمیر کی گئی ہے اس کے نیچے کرشن جنم بھومی ہے ۔ اس وقت عدالت نے 1991 ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست کو مسترد کر دیا تھا ۔ مذہبی عبادت گاہوں کی حفاظت کے تعلق سے جو قانون بنایا گیا تھا اس کے بعد بھی کئی بار درخواستیں دی گئیں تھیں لیکن ہر بار انھیں مسترد کر دیا گیا۔
اسی طرح تاج محل کے 22 مقفل کمروں کے کھلوانے کی عرضی بھی دی گئی تھی لیکن اس درخواست کو بھی رد کر دیا گیا۔
اگر گیان واپی مسجد کی تاریخی حیثیت کی بات کی جائے تو آل
انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے پریس نوٹ میں کہا تھا کہ
یہ بھی پڑھیں
https://tahirnadwi111.blogspot.com/2022/09/%20%20%20%20%20%20%20%20%20%20%20%20%20%20%20%20%20.html
1937 میں دین محمد اسٹیٹ سکریٹری میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں یہ طے کر دیا تھا کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو نماز پڑھنے کا حق ہے اور یہ بھی طے کر دیا گیا تھا کہ متنازع اراضی کا کتنا حصہ مسجد کا ہے اور کتنا مندر کا ہے اور اسی وقت وضو خانے کو بھی مسجد کی ملکیت میں تسلیم کیا گیا تھا لیکن ان تمام نکات کو نظر انداز کر کے سول عدالت کے حکم پر سروے کرایا جاتا ہے ، ویڈیو گرافی کرائی جاتی ہے اور وضو خانے کے فوارے کو شیولنگ بتا کر وضو خانے کو بند کر دیا جاتا ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ان پانچ خواتین کی طرف سے جو عرضی داخل کی گئی تھی کہ گیان واپی مسجد کے عقبی حصے میں ماں شرنگر گوری کی پوجا اور درشن کی اجازت دی جائے تو اسی وقت اس عرضی کو خارج کر دینا چاہئے تھا تاکہ جھگڑے اور فساد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ مسلمانوں کی عرضی کو مسترد کرکے ہندوؤں کی عرضی کو منظور کرتے ہوئے کیس کو قابل سماعت بنا دیا گیا ۔اب سوال یہ ہے کہ گیان واپی مسجد کے سروے کا حکم کیوں دیا گیا اور اس کیس کو قابل سماعت کیوں کہا گیا جبکہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کا اطلاق گیان واپی سمیت ملک کی تمام مذہبی مقامات پر ہوتا ہے تو پھر سرکار اور عدلیہ اس کے لئے چور دروازے کیوں تلاش کر رہی ہے ؟
اس کا بہت واضح جواب اوما بھارتی نے دے دیا ہے کہ مسلمان جب تک کاشی اور متھرا کی عبادت گاہوں سے دستبردار نہیں ہو جاتے ملک میں یکے بعد دیگرے مذہبی عبادت گاہوں کو چھینا جاتا رہے گا ۔ بابری مسجد کے فیصلے نے شر پسند عناصر کے لئے راستہ ہموار کردیا تھا اور گیان واپی مسجد کوئی آخری بھی نہیں ہے بلکہ اس تنازعہ کو سیاست دان اپنی سیاست کے لئے استعمال کریں گے اور انجام کار وہی ہوگا جو بابری مسجد کا ہوا۔
مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم اور سب سے بڑا قصور ان کی خاموشی ، جمہوریت پر اندھا اعتماد اور خدا سے زیادہ عدالتوں کے انصاف پر بھروسہ ہے اور مسلمانوں کی اسی کمزوری کا پورا پورا فایدہ اٹھایا جاتا رہا ہے۔ یہ شر پسند عناصر جو انسانیت اور معقولیت کی ساری حدیں پار کر چکے ہیں۔ جو اپنی طاقت کے نشے میں چور ہیں ان سے کسی معقولیت اور انصاف کی امید رکھنا فضول ہے جن کی نیتوں میں فتور سرایت کر گیا ہو ان سے حسن ظن رکھنا کہ یہ گیان واپی مسجد کے تعلق سے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں گے محض خام خیالی اور بے وقوفی ہے۔
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی ہے دلیل اور حجت
بالکل درست فرمایا آپ نے بابری مسجد کے متعلق کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی بھول اسکا خاموش رہنا تھا جو کہ بہت افسوس کی بات ہے
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں