آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ غلام کانگریس سے آزاد ہوئے؟ | محمد طاہر ندوی

 آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ غلام کانگریس سے آزاد ہوئے؟

محمد طاہر ندوی



گزشتہ دس سالوں سے سیاست اور سیاست دانوں کی کال کوٹھری میں ایسی اتھال پتھال ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کب سیاست کی بساط بدلے یا سیاست دانوں کا مزاج۔ وقت اور حالات کے پیش نظر سیاست بھی رنگ بدل رہی ہے اور سیاست دان بھی۔ جس طرح لوگ کپڑے بدلتے ہیں ٹھیک اسی طرح گزشتہ دس سالوں سے سیاست روز اپنے کپڑے تبدیل کر رہی ہے اور سیاست کی اقتدا میں سیاست دان بھی روز اپنے کپڑے تبدیل کر کے کبھی اس کے در کبھی در بدر کی روٹیاں کھا کر خوش ہیں ۔ ایسے لوگوں کی ایک لمبی فہرست ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح دہلی کی انڈیا گیٹ پر مجاہدین آزادی کے ناموں کی فہرست ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے نہ رنگ بدلے نہ کپڑے اور نہ ہی اپنے ضمیر کا سودا کیا لیکن اس فہرست میں رنگ سے لے کر روپ تک، سُر سے لے کر تال تک اور کپڑے سے لے کر گھر بار تک سب بدلے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ دکھ بھری داستان ہندوستان کی کس سیاسی جماعت کی ہے تو آپ کے دردِ سر میں مزید اضافے کے لئے یہ بات بتادیں کہ ہمارے ملک کی سب سے پرانی قیادت اور سب سے مضبوط اپوزیشن جماعت یعنی کانگریس پارٹی کی ہے جو آج اپنا وجود بچانے کے لئے " بھارت جوڑو یاترا " پر نکلی ہوئی ہے۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ خود یہ جماعت ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی شکار ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی سیاسی جماعت نہ ہو کر کوئی منچ ہو جہاں لوگ اپنے حصے کی تقریر کرکے راہ فرار اختیار کر جاتے ہیں۔ اگر آپ کے دردِ سر کے ساتھ بد ہضمی کا شدید اندیشہ نہ ہوتا تو میں ان تمام ناموں کو یکجا کر دیتا بس آپ کے علم میں اضافے کے لئے اتنا کافی ہے کہ ایسے لوگوں کی کل تعداد 177 ہے جن میں کانگریس کے ایم پی اور ایم ایل اے شامل ہیں، ان میں سے 155 لوگ ایسے ہیں جنہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اب کانگریس کو چھوڑ کر جانے والوں میں ایک نیا نام " غلام نبی آزاد " کا بھی شامل ہو گیا ہے ۔

غلام نبی کانگریس سے کیوں آزاد ہوئے ؟ آخر ایسی کون سی وجہ تھی کہ جس کی وجہ سے ایک ایسا لیڈر جس نے 52 سال تک کانگریس کی خدمت کی اور اب ایسے وقت میں جب کانگریس کے لئے کرو یا مرو جیسی صورتحال بنی ہوئی ہے اور موجودہ حکمرانوں کی جانب سے " کانگریس مکت " کی تحریکیں چل رہی ہیں ، ایسے مشکل ترین دور میں ایک ایسا لیڈر جس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کانگریس کے لئے صرف کر دیا ؛ اسے پارٹی چھوڑ کر جانے کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟



غلام نبی کے کانگریس سے آزاد ہونے کی کئی وجوہات ہیں اور صرف وجوہات نہیں بلکہ کچھ اندیشے اور گمان بھی ہیں ۔ آزادی کی یہ کہانی شروع ہوتی ہے 2013 سے ۔ غلام کو یہ زعم رہا ہے کہ وہ راجیو گاندھی ، اندرا گاندھی ، نرسمہا راؤ بلکہ سونیا گاندھی کی صدارت تک وہ پارٹی کے کسی نہ کسی اعلیٰ عہدوں اور منصبوں پر فائز رہے ہیں لیکن 2013 میں راہل گاندھی کے نائب صدر بنتے ہی ان سے ان کے تمام عہدے اور منصب چھینے جا رہے ہیں اور شاید یہی بات تھی کہ جب وقار رسول بانی کو کشمیر کا صدر بنایا گیا تو غلام نبی آزاد نے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم سے ہمارا ساتھ دینے والے لوگ چھینے جا رہے ہیں اور یہاں سے ناراضگی کا یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے جو انہوں نے اپنے خط میں کہا ہے کہ جب راہل گاندھی کو پارٹی کا صدر بنایا گیا تو انہوں نے کانگریس کے کام کرنے کا طور طریقہ کو ختم کر دیا ۔ مشاورتی طریقہ کار کو منہدم کر دیا ۔ تمام سینئر لیڈروں کو کنارہ لگا دیا ۔ سال 2020 میں پارٹی کے 23 سینئر لیڈروں نے خط کے ذریعے پارٹی کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو بتایا تھا اور ساتھ ہی ان کمزوریوں کو کیسے دور کیا جائے اس پر بھی روشنی ڈالی تھی تو انہیں اس بات پر نشانہ بنایا گیا اور ان پر حملے کرائے گئے۔

تیسری وجہ یہ ہو سکتی کہ راہل گاندھی کی بے جا مداخلت ، کام کرنے کے طور طریقے ، نہ تو راہل گاندھی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے طاقت کو کھونا چاہتے ہیں یعنی پاور ودآؤٹ رسپانس بیلیٹی اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے لیڈران پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں اور یہی بات 2015 میں ہیمنت بسوا نے پارٹی چھوڑتے ہوئے کہی تھی کہ صرف راہل گاندھی رہ جائیں گے باقی سب چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ یہ ساری باتیں کوئی نئی نہیں ہیں بلکہ یہ وہی باتیں ہیں جو سنیل جاکھر ، اشونی کمار کپل سبل اور دوسرے لیڈروں کی طرف سے کہی گئی ہے۔



اس واقعہ کا دوسرا پہلو کچھ اندیشوں اور گمانوں سے گھرا ہوا ہے اور یہ اندیشے 15 فروری 2021 سے شروع ہوتے ہیں۔ جہاں راجیہ سبھا میں غلام نبی کی تقریر پر وزیر اعظم کے آنسو بہتے ہیں ۔ پھر کچھ دنوں کے بعد ہی غلام کو " پدم بھوشن " کے اعزاز سے نوازا جاتا ہے اور اس طرح وہ وزیر اعظم کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں اور اب تو باضابطہ تعریفوں کے پل باندھے جا رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو انسانیت نواز بتایا جا رہا ہے اور یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ وزیر اعظم کتنے بڑے انسانیت نواز ہیں۔ اب اس معاملے کو سمجھئے غلام نبی آزاد نے کشمیر میں الگ پارٹی بنانے کا اعلان کر دیا ہے اور اس پورے واقعے کے پیچھے بھی مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ بی جے پی کو ہر حال میں کشمیر چاہئے اور اس کے لئے اسے ایک ساتھ چاہئے اور یہ ساتھ غلام نبی آزاد کا بھی ہو سکتا ہے اسی لئے اس پر اتنی مہربانی کی گئی تاکہ اس کا ساتھ ملے اور کشمیر کا وناش ہو سکے ورنہ ایک ایسی ریاست جہاں 70 سے 75 لاکھ ووٹرز ہوں وہاں 24 سے 25 لاکھ نئے ووٹرز کو لانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر ایسے میں بی جے پی کو ایک نئی پارٹی کا ساتھ مل جاتا ہے تو آئندہ ہونے والے کشمیر ودھان سبھا الیکشن کو جیتنا بی جے پی کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ کشمیر کو لے کر بی جے پی جو جال بچھا رہی ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب پہلے سے زیادہ متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ غلام نبی آزاد اگر کوئی پارٹی بناتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ کشمیر کی دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کریں اور ساتھ مل کر بی جے پی کا مقابلہ کریں۔ کشمیر اور کشمیری عوام کی حفاظت کریں بصورت دیگر کشمیر بھی ہاتھ سے جائے گا اور کشمیری عوام بھی ۔


1 تبصرے

  1. بہت عمدہ, معلوماتی حقائق کو بیاں کرتی تحریر . رب کرے زور قلم اور زیادہ

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی