یہ کیسی معافی نامہ کی پالیسی ہے ؟
محمد طاہر ندوی
سب ایڈیٹر ہفت روزہ ملی بصیرت ممبئی
یوم آزادی کی صبح بلقیس بانو کے مجرموں کے لئے آزادی کی صبح بہار ثابت ہوئی ہے، وہ گیارہ افراد جو عصمت دری اور قتل کے مجرم تھےاور 2008 سے عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے انہیں بھی آزادی کا امرت مہا اتسو کے طور پر معافی نامہ دے دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مجرموں کو جنہوں نے پانچ مہینے کی حاملہ عورت کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی ، اس کے سامنے اس کی تین سالہ بچی صالحہ کو زمین پر پٹخ کر ما ر ڈالا ، اس کے خاندان کے 14 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور خود بلقیس بانو کو مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا کیا ایسے مجرموں کو ریمیشن پالیسی کے تحت معافی دی جا سکتی ہے ؟
ریمیشن پالیسی 1992 ایک ایسی پالیسی ہے جس میں عمر قید کی سزا پانے والوں کی مدت میں تخفیف کر دی جاتی ہے پہلے یہ مدت 20 سال تھی جس میں تخفیف کرکے 15 سال کر دیا گیا اس کے بعد 2012 میں ہائی کورٹ نے مزید تخفیف کرتے ہوئے کہا کہ عمر قید کی سزا پانے والے مجرموں کو 14 سال کے بعد رہا کیا جا سکتا ہے ۔ جس وقت بلقیس بانو کے خلاف جرم ہوا اور مجرموں کو سزا سنائی گئی اس وقت یہی پالیسی نافذ تھی لیکن نومبر 2012 میں سپریم کورٹ نے اس پالیسی کو مسترد کر دیا تھا اس کے بعد 2014 میں پھر ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی بنیاد پر ایک نئی پالیسی بنائی جس میں ان شرائط کو کالعدم قرار دیا گیا جن کی بنیاد پر معافی دی جا سکتی تھی اور اس نئی پالیسی میں ان تمام مقدمات کی فہرست تیار کی گئی اور کہا گیا کہ اگر مجرم کو کسی ایسے جرم کی سزا سنائی گئی ہو جس کی تفتیش سینٹرل بیورو آف انویسٹیگیشن ( سی بی آئی ) کرتا ہے اور جس میں عصمت دری اور اجتماعی عصمت دری کے ساتھ قتل بھی ہو ایسے مجرم کو اس نئی پالیسی کے تحت معافی نہیں دی جا سکتی ہے جبکہ پرانی پالیسی میں ایسی کوئی پابندی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود گجرات کی بی جے پی سرکار پرانی پالیسی کے تحت ان گیارہ مجرموں کے جرائم کو ریمیشن پالیسی کا غلط استعمال کرتے ہوئے معافی نامہ جاری کر دیتی ہے ۔ یہ سراسر قانون کا غلط استعمال ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق وہ گیارہ مجرمین معافی نامہ کے اہل نہیں ہیں تو پھر کیوں انہیں معافی دی گئی ؟
ایک طرف ملک کے وزیر اعظم خود کو عورتوں ، بچوں بلکہ پورے ملک کا محافظ اور چوکیدار کہتے ہیں ،مسلم عورتوں کے حقوق اور انصاف کی بات کرتے ہیں ، مسلم عورتوں کے لئے تین طلاق کی بل لے کر آتے ہیں اور مسلم خواتین کو تحفظ دینے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ان کی سرکار مسلم عورتوں کے ساتھ نا انصافی کرتی ہے، ان کے مجرموں کو معافی نامہ دیتی ہے ، ان کی سزا میں تخفیف کرتی ہے، جیل سے باہر نکلنے پر ان کا استقبال کیا جاتا ہے ، انہیں آر ایس ایس اپنے دفتر لے جاتی ہے، انہیں پھولوں کی مالا پہنائی جاتی ہے ، ان کا آشرواد لیا جاتا ہے ، انہیں مہذب کہا جاتا ہے ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سرکار معافی کی پالیسی کو سیاست کی پالیسی کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔
یہ اچھی بات ہے کہ حکومت کی اس غلط اقدام کو لے کر بڑے پیمانے پر تنقید ہو رہی ہے ۔ صحافیوں ، وکلاء اور سماجی کارکنان سے لے کر سیاسی جماعتوں تک میں بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے۔ معافی نامے کی منسوخی کی بات ہو رہی ہے اور ایسے وکلا اور ججیس کی طرف سے یہ بات ہو رہی ہے جنہوں نے ان مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اب معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا ہے۔ حکومت کو سوال کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے اور حکومت کے منشاء کو کھل کر بیان کیا جا رہا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ انصاف کی دیوی کے ہاں ظلم و ستم کی ایک دیوی کو انصاف ملتا ہے یا پھر یہ معاملہ بھی سرد بستے میں چلا جائے گا ۔
ایک تبصرہ شائع کریں