یہ کیسا سماج ہے جوعورت کو دیوی بناکر پوج تو سکتا ہے مگر اسکی عزت نہیں کرسکتا!

 یہ کیسا سماج ہے جوعورت کو دیوی بناکر پوج تو سکتا ہے مگر اسکی عزت نہیں کرسکتا! 

محمد طاہر ندوی

سب ایڈیٹر ہفت روزہ ملی بصیرت ممبئی   



کسی بھی تہذیب و ثقافت اور سماج کی خصوصیات جاننے کے لئے اس تہذیب یا سماج میں عورتوں کے مقام و مرتبے کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔ اگر سماج میں عورت کو اپنا مقام اور اپنا تحفظ حاصل ہے تو وہ سماج اور معاشرہ ترقی کی راہ پر ہے اور جس سماج میں عورت کو اپنا مقام اور تحفظ حاصل نہیں ، جس سماج میں عورت کو" شودر " کی فہرست میں رکھا جاتا ہو ، جس معاشرے میں عورت کو تحقیر و تذلیل اور مذمت کا سامنا کرنا پڑتا ہو ، قاتل کی چھری اور شیر کے منہ سے زیادہ زخم پہنچانے والی تصور کیا جاتا ہو اور جس تہذیب و ثقافت میں عورت کی کردار کشی کو الہامی حکم اور اپنا فرض منصبی سمجھا جاتا ہو تو اس تہذیب کی جڑیں کھوکھلی اور اس معاشرے کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں اور وہ سماج تنزلی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔  

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس میں عورت کو دیوی بنا کر پوجا جاتا ہے۔ چاہے رام کی بیوی سیتا یا کرشن کی محبوبہ رادھا ہو ، برہما کی بیوی سرسوتی یا شیو کی بیوی پاروتی ہو یا کرشن کی ملکہ خاص رکمنی ہو یا قدیم تہذیبوں سے تقدس کی حامل رہنے والی دیویاں گنگا ، مایا اور دھومرتی دیوی ہو یا طاقت و قوت کی دیوی " شکتی " یا مال و زر کی دیوی " لکشمی" ہو یہ ساری عورتیں ( دیویاں ) ہندوستانی تہذیب و معاشرت میں تقدس کی حامل ہیں۔ ان کی پوجا کی جاتی ہے ۔ ان کے نام پر بڑے بڑے تہوار منائے جاتے ہیں ، خوشیاں منائی جاتی ہیں، جہاں عورت کی پوجا ہوتی ہے وہاں دیوتا قیام کرتے ہیں جیسی مثالیں دی جاتی ہیں ان سب کے باوجود اگر اس تہذیب میں عورت کو اپنا مقام حاصل نہ ہو اپنا تحفظ میسر نہ ہو بلکہ اس کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہو ، اس کے مقام اور مرتبہ کو پیروں تلے کچلا جا رہا ہو ، عورت استحصال کا شکار ہو ، جنسی تشدد کا شکار ہو ، جسمانی تکالیف ، زدو کوب ، چھیڑ چھاڑ اور اغوا عام ہو ، اس کی اسمگلنگ ہو رہی ہو ، اسے منڈی میں فروخت کیا جا رہا ہو ، عصمت دری و اجتماعی عصمت کے واقعات میں تیزی آ رہی ہو اور قتل کے واقعات بڑھ رہے ہوں تو اس تہذیب سے وابستہ لوگوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے ۔ انہیں سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ جس سماج میں عورت کو دیوی کا درجہ دیا گیا ہے کیا اس عورت کا مقام و مرتبہ اور ادب و احترام بھی باقی ہے ؟



یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ جس ملک میں عورتوں کی تحفظات کو لے کر پندرہ سے زیادہ قوانین موجود ہوں ، عورتوں کے حقوق کے لئے تنظیمیں ہوں ، این جی اوز ہوں لیکن پھر بھی ریپ ،قتل اور جنسی تشدد کے واقعات روز افزوں بڑھ رہے ہوں یہ کسی بھی سماج سے تعلق رکھنے والے کے لئے پریشانی کا باعث ہے ۔ انڈین ڈیٹا کرائم کے مطابق ہمارے ملک میں ہر سولہ منٹ پر ایک ریپ ہوتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر 77 سے 88 ریپ کے واقعات ہوتے ہیں ۔پھر پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا کی رپورٹ تو اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت میں عصمت دری سے متعلق واقعات میں گزشتہ دو دہائیوں کے اندر 70.7 فیصدی کا اضافی ہوا ہے۔ پھر ان مقدمات میں صرف دس فیصد نے ٹرائل مکمل کیا اور باقی مقدمات کو یا تو شواہد کی کمی یا ڈر اور خوف کی وجہ سے بند کر وا دیا گیا ۔ 



یہ تلخ حقائق ہے کہ ملک ہندوستان جنسی تشدد کی طرف بڑی تیزی سے چل پڑا ہے۔جنسی تشدد کی دوڑ میں دنیا کے ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جہاں جنسی تشدد سب سے زیادہ ہے۔ اب ریپ کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس میں ملوث مجرموں کو معافی دی جا رہی ہے ۔ ان کا استقبال کیا جا رہا ہے ۔ انہیں مٹھائی کھلائی جا رہی ہے ۔ انہیں سیاسی حلقوں میں پذیرائی مل رہی ہے ۔ انہیں برہمن اور اعلیٰ ذات بتایا جا رہا ہے۔ انہیں مہذب کہہ کر تہذیب کو داغدار بنایا جا رہا ہے ۔ اب سماج کے بدبودار لوگ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ لڑکے لڑکے ہی رہیں گے وہ غلطیاں کرتے ہیں کیا اب انہیں عصمت دری کے لئے پھانسی دی جائے گی ، گھر والوں کو چاہئے کہ اپنی لڑکیوں کو سنسکار سکھائیں ۔ اس طرح مجرموں ، قاتلوں اور جنسی زیادتی کرنے والے سماج کے دشمنوں کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ 

یوم آزادی کے موقع پر ملک کے وزیر اعظم لال قلعہ سے عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ان کی تحفظات کو لے کر بڑے بڑے لکچر دیتے ہیں ، ان کی ترقی ، تعلیمی اداروں اور دیگر اسپورٹس کے میدانوں میں ان کے نمایاں کردار کی دہائی دیتے ہیں لیکن زمینی حقائق پر بالکل خاموش رہتے ہیں۔ ان کی طرف سے ایسے مجرموں کے خلاف اور اپنے ملک کی بیٹیوں اور دیویوں کے حق میں خود وزیر اعظم اور ان کی پوری کابینہ خاموش رہتی ہے جبکہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ خوب زور و شور سے دیا جاتا ہے ۔ ناری سمان کو لے کر خوب واویلا مچایا جاتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں آج نہ بیٹی محفوظ ہے نہ ناری سمان کا وجود ہے ۔ 







Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی