میری ڈائری قسط نمبر 14
مؤرخہ 20 مئی 2020
حصولِ علم کے لئے میری تلاش و جستجو جاری تھی ، لیکن گھر میں کہنے کی ہمت بھی نہیں تھی ، کیوں کہ اپنے ہاتھوں اپنے والدین ، عزیز و اقربا کے اعتماد اور بھروسے کا گلا گھونٹ چکا تھا ، اس لئے میرا طلب علم کے لئے کوشاں رہنا یا جہالت و گمراہی کے راستے میں بھٹکتے رہنا برابر تھا ۔
کچھ ایام گزرنے کے بعد ایک پیغام موصول ہوا جس میں لکھا تھا " ہمیں درس و تدریس کی خدمات انجام دینے کے لئے ایک مدرس کی ضرورت ہے "
اگر آپ خواہشمند ہیں تو ہم سے رابطہ کریں۔
والسلام علیکم۔۔۔
میری خوشی کی انتہا نہ رہی ، آنکھوں سے چشمِ آب جاری ہو گئے ، اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر بجا لایا، جیسے مجھے جنت کا سرٹیفیکیٹ دے دیا گیا ہو ۔
خبر کے موصول ہوتے ہی اگلی صبح طلوعِ آفتاب کے ہمراہ اپنا رختِ سفر باندھ کر نکل پڑا، جوں جوں سورج کی کرنیں اور شعاعیں روشن ہوتی گئیں دنیا پر چھائے کالے بادل اور گھنگھور گھٹائیں صاف و شفاف ہوتی چلی گئیں اور میرے لئے تمام راستے بانہیں پھیلائے آنکھوں کے سامنے رقص و سرود کرنے لگے ۔
متعلقہ ایڈریس پر پہنچ کر تھوری دیر تک فرشِ راہ رہا ابھی تھکاوٹ کا احساس ختم نہ ہو سکا تھا کہ مغرب کی اذان ہو گئی ۔
مدرسے کے احاطے میں واقع مسجد نما چھوٹے سے ہال میں نماز ادا کی ، نماز سے فراغت کے بعد اسٹاف روم میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگا ، تھوری دیر کے بعد خبر ملی کہ مدرسہ کے مہتمم حضرت مولانا اکرام الحق صاحب تشریف لا چکے ہیں اور آپ سے ملاقات کے مشتاق ہیں۔
دفتر میں پہنچ کر ان سے ملاقات ہوئی ، اور درس و تدریس سے متعلق موضوعات پر کچھ تبادلئہ خیال ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد بطور ایک استاذ کے میری تقرری کردی گئی۔
دورانِ درس و تدریس دل میں ایک خیال آیا اور وہ تھا قرآن کو از سرِ نو یاد کرنا ، جس کو میں فراموش کر چکا تھا، برسوں شکل تک نہیں دیکھی ، یہ چیز مجھے اندر سے بے چین و مضطرب کر رہی تھی کہ کیسے اپنے سرمائے حیات قرآن کو حاصل کیا جائے ؟ کیسے اپنے کل اثاثہ کی بازیافت ممکن ہو؟
اچانک رحمت الٰہی میری طرف متوجہ ہوئی اور ایک راہ دکھا گئی اور میری مشکلیں آسان کر گئی۔
جاری۔۔۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں