میری ڈائری قسط نمبر 12

 میری ڈائری قسط نمبر 12 

Tahir Nadwi


رات کافی ہو چکی تھی، تاریکیوں کی دبیز چادریں چار دانگِ عالم کو اپنی آغوش میں لیکر خوابِ خرگوش سے لطف اندوز ہو رہی تھیں، اور کارگاہِ ہستی خاموش تماشائی بنی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی عکاسی کر رہی تھی۔


 میں نے گھر کا راستہ لیا اور تاریک نما اپنے خلوت خانہ کو چراغ سے روشناس کرایا ، تاریکیوں اور اجالوں میں باہم شناسائی کے بعد خانہ خراب کی بے بسی و لاچارگی نے خانہ آباد کے آگے سرِ تسلیم خم کر کے نو دو گیارہ ہو گئیں ، اور رخصت ہوتے ہوئے میرے دل کی تاریکیاں ، ویرانیاں اور پریشانیاں وراثت میں اپنے ہمراہ لے گئیں۔



جائے استراحت پر فرشِ راہ ہوتے ہی خیالات و تصورات کی دنیا میں انگڑائیوں نے جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پُر نور و پُر رونق، بے شمار محاسن و کمالات سے مزین ، حسن و جمال سے معمور، اور تجلیاتِ الٰہی سے شرابور چہرہ آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا۔



ابھی عالمِ تخیلات میں سیر و سیاحت کے ذریعے لذائذ و مرغوبات کی ذخیرہ اندوزی کرنے میں محوِ سفر تھا کہ اچانک سوالات و جوابات سے پُر، موجِ تلاطم کی آمد کا علم ہوا ، 


یہ دیکھ کر با دلِ ناخواستہ راہِ فرار اختیار کرنے کے بارے غور و خوض کرنے لگا ، اور تدبیریں سوچنے لگا لیکن ساری تدابیر ، حیلے اور بہانے زمیں بوس ہوکر رہ گئیں۔


  اور بالآخر ناکامی کے ہاتھوں ناقابلِ یقین شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔


اور پھر خود سے گویا ہوا :


 کوئی اتنا پُر کشش کیسے ہو سکتا ہے؟ 


 کوئی اتنا مواسات و مواخات کا پیکر کیسے ہو سکتا ہے؟


 کوئی اتنا ہمدرد و خیر خواہ کیسے ہو سکتا ہے؟


کیسے کوئی کسی کی زندگی یکسر تبدیل کر سکتا ہے؟


کیسے کوئی کسی کی اجڑی ہوئی دنیا کو آباد کر سکتا ہے؟

کیسے کوئی وحشی ابن حرب ( رضی اللہ عنہ) جیسے انسان کو درِ رسولِ کائنات کا عاشق و مجذوب بنا سکتا ہے؟

کیسے کوئی ابن ساباط جیسے نقب زن کو راہِ راست پر لاکر سید الطائفہ کی صف میں کھڑا کر سکتا ہے ؟


 جس نے چالیس برس شہرِ بغداد میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور وقت کے سب سے بڑے ولی اللہ و عاشقِ رسول حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ کے ساتھ زیادتی کی اور دشنام طرازی و بد سلوکی کو روا رکھا ،

جس کو دنیا کی دہشت انگیز سزائیں نہ بدل سکیں ایک مردِ مومن کی نگاہ کیسے بدل سکتی ہے؟


ابھی سوالات و جوابات کا یہ موجِ تلاطم ٹھاٹھیں مارتا ہوا آسمان کے سینے کو چاک کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک ایک غیر متوقع اجنبی شخص کی آمد نے میرے ہوش و حواس باختہ کر کے رکھ دئے۔


میری حیرت و استعجاب کی اس وقت انتہا نہ رہی جب نور الٰہی کی کرنیں ان کے چہرے پر عیاں ہوئی جس نے ان کی اجنبیت کو ختم کر دیا اور ہمارے درمیان باہم شناسائی ہو گئی۔


 وہ کوئی اور نہیں، شاعرِ مشرق علامہ اقبال ( علیہ الرحمہ) کی ذاتِ گرامی تھی جو زبانِ حال کہہ رہے تھے:


کوئی اندازہ کر سکتا ہے اسکے زورِ بازو کا

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔۔۔۔ 

مؤرخہ 17 مئی 2020


جاری ۔۔۔۔۔۔۔




Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی