میری ڈائری قسط نمبر 7
مؤرخہ 11 مئی 2020
ایک پُر سوز غم تھا ۔۔۔۔ جو بے بس جسم کو بوجھل بنا رہا
تھا۔
ایک کشش تھی۔۔۔۔۔ جو مجھے اپنی اور کھینچے جا رہی
تھی۔
ایک تڑپ تھی۔۔۔۔۔ جو رہ رہ کر مزید میرے زخموں پر
نمک پاشی کر رہی تھی۔
ایک تکلیف تھی۔۔۔۔۔ جو اندر ہی اندر لاوا بنکر پھوٹ رہی
تھی۔
ایک الجھن تھی ۔۔۔۔۔۔جو دلِ بے قرار کو مزید بے چین کر
رہی تھی۔
ایک تشنگی تھی۔۔۔۔۔۔ جو لبوں کو خشک اور جسم کو بنجر
بنا رہی تھی۔
ایک آرزو تھی۔۔۔۔۔ جو دلِ ناتواں کو زیرو زبر کر رہی تھی۔
ایک تلاش و جستجو تھی۔۔۔۔۔۔ جو دیوانہ بنا کر سرگرداں
گھومنے پر مجبور کر رہی تھی۔
اور۔۔۔۔۔
میں حالات کے ہاتھوں؛ مجبوری، لاچاری اور بے بسی کے عالم میں گردشِ دوراں کے لئے مطمحِ نظر بن کر رہ گیا تھا۔
جسے منزل کی خبر نہ راستے کا علم، بھوک کا احساس نہ
شدتِ پیاس کی فکر، اعضاء جسم کے ٹوٹتے بکھرتے حوصلے کا غم نہ طوالتِ سفر اور اس کے نتیجے تھکن کی شدت ، اور پھر پیروں پر منقش چھلنیاں ؛ اور ان چھلنیوں سے اٹھتی جاں سوز و جاں گُزا تکالیف سے نا بلد ،
قلب و جگر سے اٹھتیں ، مچلتیں اور کروٹیں لیتیں درد و الم کی چیخ و پکار سے نا آشنا ، خلقِ خدا کی اٹھتیں زہر آلود اور آتش فشاں نگاہوں سے لا علم و بے خبر، میں دیوانہ وار پھرتا رہا ، مشرق و مغرب کا طواف کرتا رہا، گردشِ ایام
کو برداشت کرتا رہا۔
پھٹے کپڑے، ٹوٹے جوتے، بکھرے بال، خستہ حال، خالی پیٹ، افسردہ چہرہ، خشک پتوں کی مانند سوکھے ہونٹ ، اس پر مستزاد باز گشت کرتے قہقہے، اور دلِ بے قرار کو پارہ پارہ کرنے والی طعن و تشنیع کو خاطر میں نہ لا کر مسلسل راہِ حق کی تلاش و جستجو میں عرق ریزی کرتے
ہوئے اپنے سفر پر گامزن تھا
کہ۔۔۔۔۔
بارانِ رحمت میری طرف متوجہ ہوئی اور میری بنجر زمین
کو سیراب کر گئی۔۔۔۔۔
جاری۔۔۔۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں