اپنے معاشرے کی فکر کیجئے

 اپنے معاشرے کی فکر کیجئے 

طاہر ندوی 

امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ 



اخلاق بگڑ گئے۔ کردار اپنی موت مر چکا۔ شرم و حیا نے خود کو  ایک چادر میں لپیٹ کر گھر کے کسی کونے میں بیٹھ چکی۔ خیر خواہی کا جذبہ ختم ہو گیا۔ نیکی اور بھلائی کہیں گم ہو کر رہ گئی۔ انصاف دم توڑ چکا۔ محبت سر بازار بکنے لگی۔ والدین کا احترام ختم ہوگیا۔ اساتذہ کا ادب جاتا رہا۔ پڑوسیوں کا خیال جاتا رہا۔ بد اخلاقی عام ہو گئی۔ بے حیائی اپنے عروج پر ہے۔ برائی بے لگام ہو گئی۔ جھوٹ کا بول بالا ہے۔ خیانت فیشن بن چکا۔ دھوکہ دہی حق جان بن گیا۔ دغا بازی اور مکاری ہنر بن چکا۔ گالی گلوج اور بے ہودہ باتیں  حسن مزاح کا شاہکار بن گئی۔ نا انصافی سارے بندھنوں سے آزاد ہو گئی۔ غیبت اور چغل خوری کی عادت ہو گئی۔ بے حیائی نے فیشن کا روپ دھار لیا۔ رشوت اور سود کا بازار گرم ہے۔ سر عام عزتوں کو اچھالا جاتا ہے۔ دن دہاڑے قتل و خوں ریزی کا منظر پیش کیا جاتا ہے۔ حسد اور بغض نے دلوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ یہ ساری برائیاں اب ہمارے معاشرے کا حصہ بن گئیں ہیں بد اخلاقی کی جتنی شکلیں اور صورتیں ہو سکتی تھیں؛ بد قسمتی سے اب وہ ساری شکلیں اور صورتیں اب ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو مل جائیں گی۔ 


معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری ایک ایسی ذمہ داری ہے جس کو کسی ایک قوم یا جماعت کے بھروسے نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ معاشرے کا ہر فرد اس کا ذمہ دار ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کی فکر کرے اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ اس کے لئے آپ قرآن و احادیث کی روشنی میں ان اصولوں کو اختیار کریں جو اصلاح معاشرہ کی طرف رہنمائی کرتی ہیں یا جن سے رہنمائی ملتی ہے۔ پھر ان اصولوں کے مطابق تدبیریں اختیار کریں اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ اصلاح معاشرہ کا کام کرتے چلے جائیں۔  


یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے بلکہ مشکلوں، مجاہدوں اور قربانیوں سے بھرا ایک کام ہے اور یہ کام ایک ایسا کام ہے جسے حکومت یا قانون کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا آپ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جن حکومتی اداروں یا قانونی اداروں نے معاشرے کی اصلاح کی کوششیں کی ہیں وہ پوری طرح ناکام ہوئی ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ اصلاح معاشرہ کا کام حکومت کے دباؤ یا قانون کا ڈر دکھا کر نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ کام صرف اور صرف دل میں خوف خدا و خوف آخرت پیدا کرکے ہی انجام دیا سکتا ہے۔ 


ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اپنے دائرے اور حلقے میں رہتے ہوئے معاشرے کے اصلاح کی فکر کریں۔ گھر کے افراد پر خصوصی توجہ دیں۔ حتی الامکان بچوں کو موبائل سے دور رکھیں۔ اپنے دوست و احباب کے انتخاب میں اس کی نیکی، صداقت، سچائی، ایمانداری، دینداری اور خلوص کو اہمیت دیں۔ اگر ان کے اندر کوئی برائی بے تو اس کو پیار و محبت کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی ظلم کرے تو معافی کو ترجیح دیں۔ کوئی حق تلفی کرے تو آپ حقوق کو ادا کرنے والے بن جائیں۔ کوئی گالی گلوج کرے تو آپ حسن اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ دینی کتابوں کا مطالعہ بھی کریں۔ اپنے دوستوں میں اس کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے واقعات پڑھ کر سنائیں اور اپنے گھر میں دینی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ 



 


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی