معاف کردیا کرو
طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ
عبداللہ کا ایک معمول تھا وہ رات سب کو معاف کرکے سویا کرتا بھلے ہی اس پر ظلم ہوا ہو ، کسی نے زیادتی کی ہو یا کسی نے اس کا حق مارا ہو ۔
گزشتہ جمعہ جب وہ مسجد گیا تو اس نے دیکھا کہ لوگوں کے ہجوم سے مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ، کوئی رکوع و سجود میں تھا تو کوئی قیام و قعود میں اور منبر پر جلوہ افروز ، سفید پوش ، سفید داڑھی اور سفید عمامہ میں ملبوس ، ایک عمر رسیدہ ، ہاتھ میں عصاء موسیٰ لئے امام صاحب خطاب کر رہے تھے
" اللہ کے بندوں ! رات جب سویا کرو تو اپنے دل سے سارے گردو غبار نکال کر سویا کرو "
یہ بات اس کے دل میں بیٹھ گئی تھی اس لئے وہ جب کبھی اپنے بستر پر لیٹتا اپنے دل سے سارا غبار نکال دیتا ، سب کو معاف کر دیا کرتا ۔
ایک رات جب وہ اپنے معمول کے مطابق بستر پر لیٹا اور دن بھر کے واقعات کو یاد کرنے لگا تو یکایک اپنے پڑوسی " ندیم " کی یاد آگئی جس نے صبح سویرے اکھاڑے کا میدان گرم کرکے اس کی عزت اور ناموس کو شکست و ہزیمت سے دوچار کردیا ۔
وہ پریشان تھا یہ سوچ کر کہ پوری زندگی میں نے جس کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا ، جب کبھی ضرورت پڑی تو سب سے پہلے میں نے ایک محسن کا کردار ادا کیا ، اس کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھا ، اس کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی سمجھا ، اس کی تکلیفوں کو محسوس کیا اور کبھی بھی ایسی کوئی بات زبان سے نہیں نکالی جس سے ندیم کو تکلیف ہو ۔
بالآخر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ندیم کو میری خوشیاں راس نہیں آتی ، میری خوشحالی اس سے دیکھی نہیں جاتی ، لوگوں کے ساتھ پیار و محبت ہمدردی و خیر خواہی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔
صبح اٹھ کر وہ اپنے دوست اور پڑوسی ( ندیم ) کے پاس گیا ساتھ ہی اس کی اولاد کے لئے کچھ فروٹس بھی رکھ لئے ، دروازے کے پاس کھڑا ہوکر آواز دی ؛
ندیم دروازہ کھولو ۔۔۔۔۔۔ ندیم دروازہ کھولو
کوئی جواب نہ ملنے کی صورت میں سارے فروٹس دروازے کے باہر رکھا اور ساتھ ہی ایک پرچی بھی جس میں لکھا تھا " بڑے لوگ اپنے چھوٹوں کو معاف کردیا کرتے ہیں "
عبداللہ اپنے گھر واپس آیا اور اگلی صبح پھر اس کے دروازے پر دستک دینے پہنچ گیا ؛
ندیم میرے دوست کہاں ہو ؟ دروازہ کھولو
لیکن شاید اس کی قسمت میں اب بھی نامراد ہوکر لوٹنا لکھا تھا ۔
جاتے ہوئے کچھ ناشتہ جس میں کچھ بسکٹس ، چاکلیٹس ، چپس اور کرکرے کی پیکیٹس اور ایک پرچہ جس میں لکھا تھا " بڑے لوگ اپنے چھوٹوں کو معاف کر دیا کرتے ہیں " رکھ کر چلا گیا ۔
اور ادھر ندیم کی زندگی میں طوفان برپا تھا ، وہ اپنے رویے سے بہت شرمندہ تھا اس نے سوچا کہ عبداللہ کی تو کوئی بھی غلطی نہیں ا س کے باوجود میرے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا ، غلطی میری تھی ، میں نے اس کو بدنام کرنے کی کوشش کی ، کتنا برا بھلا کہا ۔
اب اس نے ارادہ کرلیا کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے گا ، اس کے قدموں میں گر کر معافی مانگے گا ۔
ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ عبد اللہ نے اس کے دروازے پر دستک دی اور آواز لگائی
" ندیم میرے بھائی دروازہ کھولو "
یہ سنتے ہی فوراً اس نے دروازہ کھولا اور اس کو اپنے گلے سے لگا کر زارو قطار رویا اور معافی تلافی کی اور کہا :
" میرے بھائی ! میں کتنا برا ہوں ، بد اخلاق ہوں ، میں نے کتنی بدسلوکی کا معاملہ کیا لیکن تم نے ہمیشہ میرے ساتھ اچھائی کا معاملہ کیا ، ہمیشہ میرا بھلا چاہا "
اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ، چہرے سے ندامت و شرمندگی ظاہر ہو رہی تھی ، عاجزی اور انکساری اس کے رگ رگ سے نمایاں طور پر نظر آرہی تھی ۔
عبداللہ نے اس کے آنسوؤں کو پوچھا ، اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا اور اس کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا :
" یہ زندگی بہت مختصر ہے ، دنیا کی مدت بہت قلیل ہے ، ہمیں چاہئے کہ پیارو محبت کے ساتھ زندگی بسر کریں اور نفرت و عداوت کو اپنے اندر پنپنے نہ دیں اور جہاں تک ہو سکے اپنے اندر معاف کرنے کا جزبہ پیدا کریں "
ایک تبصرہ شائع کریں