زرعی قوانین کی واپسی، شہریت ترمیمی قانون کی واپسی کیوں نہیں ؟

 زرعی قوانین کی واپسی، شہریت ترمیمی قانون کی واپسی کیوں نہیں ؟ 

طاہر ندوی 

امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ 



زرعی قوانین؛ جس نے کسانوں کو کھیت کھلیان سے اٹھا کر دہلی کی سڑکوں پر لے آئی بالآخر مودی سرکار اور کارپوریٹ سیکٹر کو کسانوں کے آگے گھٹنا ٹیکنا پڑا اور ملک کے وزیر اعظم نے کسانوں سے معافی مانگتے ہوئے بل کو واپس لینے کی بات کی اور پھر 29نومبر کو صدر جمہوریہ کی منظوری کے ساتھ تینوں زرعی قوانین بل کو منسوخ کردیا گیا۔ یہ کسان آندولن کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جس نے وقت کے تاناشاہ کو چیلینج کیا اور اس کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے، جس نے موسم کے ہر رخ کو سہا، جس نے حکومت کے ہر ظلم کو اور میڈیا کے ہر طنز کو برداشت کیا، جس نے مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ سات سو کے قریب جانی نقصانات کو بھی برداشت کیا اور بالآخر ان کی قربانیاں رنگ لائیں اور حکومت وقت نے کسان مخالف بل کو واپس لے لیا ۔



اسی طرح دسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون کے نام سے ایک غیر جمہوری و غیر آئینی قانون پاس کیا گیا تھا جس کا مقصد ہی ایک مخصوص طبقہ کو خوش کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف کرنے کے لئے لایا گیا تھا جس کو لے کر پورے ملک میں بلکہ بیرونی ملک میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاجات ہوئے جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے طلباء نے ایک اہم رول نبھایا تھا جس تحریک کا آغاز طلباء و طالبات نے کیا تھا اس میں روح پھونکنے کا کام شاہین باغ کے شاہینوں نے کیا اور پھر پورا ملک گویا شاہین باغ بن گیا تھا ۔



اب سوال یہ ہے کہ کسانوں کی تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوئی لیکن شاہین باغ کے شاہینوں کو مایوسی سے ہم کنار ہونا پڑا ایسا کیوں ہوا ؟ اسں کی کیا وجوہات ہیں؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

کسی بھی جمہوری ملک میں دباؤ بہت اہم ہوتا ہے اور دباؤ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک عوامی دباؤ جو تحریکوں کے ذریعہ برپا کیا جاتا ہے دوسرا الیکشن کا دباؤ جو ووٹ کے ذریعے ڈالا جاتا ہے انہی دو دباؤ میں سے کسی ایک کو حکومتیں تسلیم کر لیتی ہیں ۔

 سی اے اے کی تحریک بنیادی طور پر خواتین کی تحریک تھی جو آزادی کے بعد شاید ہی ایسی کوئی تحریک چلی ہو جس نے پورے ملک کو اپنے آغوش میں لے لیا پھر رفتہ رفتہ نوجوان، بڑے بوڑھے، ملی تنظیمیں جو سیکولر ازم پر یقین رکھتی ہیں آگے آئے اور آگے چل کر یہ تحریک ایک عوامی تحریک بن گئی اس تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، ہندو مسلم کا رخ دے دیا گیا جس کے نتیجے میں جعفرا باد کا فساد برپا ہوا، بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیل میں ڈالا گیا ان پر یو اے پی اے اور این ایس اے جیسے سخت قوانین لگائے گئے  لیکن کسان تحریک اس کے برعکس تھی، کسان تحریک کسانوں کے نام سے تھا ، منصوبہ بند طریقے سے یہ تحریک چل رہی تھی، اس کے پیچھے مضبوط لیڈر شپ تھی، کسانوں کی 32 تنظیمیں تھیں، ان کی ایک باضابطہ کمیٹی تھی جہاں سارے معاملات طئے کئے جاتے تھے لیکن سی اے اے تحریک ایک غیر منصوبہ بند تھا، اس کے پیچھے کوئی لیڈر شپ نہیں تھی کوئی سیاسی طاقت نہیں تھی جس کی وجہ سے کہیں نہ کہیں سی اے اے تحریک کامیاب نہ ہوسکی ۔ 

دوسری بات یہ بھی ہے کہ کسان تحریک کی کامیابی کے پیچھے سیاسی مفادات کو بھی بڑا دخل ہے ابھی پنجاب ، اتراکھنڈ اور یوپی میں الیکشن ہونے والے ہیں ایسے میں سرکار اگر زرعی قوانین کو واپس نہ لیتی تو ان علاقوں میں بی جے پی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑتا اور سرکار گرنا بھی یقینی تھا اس کے بر خلاف سی اے اے تحریک میں مسلمان ہی پیش پیش تھے حالانکہ دیگر سیکولر پارٹیاں بھی تھیں لیکن شہریت ترمیمی قانون کھلے طور پر مسلمانوں کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے ووٹ کے بغیر بھی بی جے پی اپنا سرکار بناتے آئی ہے اس لئے بھی شہریت ترمیمی قانون کو واپس نہیں لیا گیا۔ 

البتہ اتنا ضرور ہے کہ جب کبھی سی اے اے اور این آر سی کو نافذ کرنے کی بات چلے گی شاہین باغ پھر سے پورے ملک میں قائم ہوگا، ہم سڑکوں پر نکلیں گے، ہم جمہوریت کے دائرے میں رہتے ہوئے آئین و دستور کی حفاظت کے لئے سراپا احتجاج بن جائیں گے اور اس وقت تک اپنے احتجاجات کو باقی رکھیں گے جب تک شہریت ترمیمی قانون کو واپس نہ لے لیا جائے  ان شاءاللہ ۔  

 

 


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی