دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کی حلف برداری

 دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کی حلف برداری

محمد طاہر ندوی 

امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ 

 


اتراکھنڈ کے ہری دوار میں 17 دسمبر کو ایک دھرم سنسد کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں بی جے پی لیڈروں سمیت کئی ہندوتوا رہنماؤں اور شدت پسندوں نے شرکت کی اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیتے نظر آئے یہ پروگرام 19 دسمبر تک چلتا رہا لیکن حکومت کے ایوانوں اور پولیس کے محکموں میں کوئی ہلچل نظر نہیں آئی ۔

اس دھرم سنسد میں ادھرمی کی بات کرنے والے بی جے پی کے لیڈر اشونی اپادھیائے نے بھی شرکت کی یہ وہی نفرت انگیز شخص ہے جس کو دہلی کے جنتر منتر میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے پر گرفتار کیا گیا تھا لیکن جس کے دماغ میں مسلمانوں کے تئیں نفرت و عداوت ہو بھلا وہ کیسے امن و سلامتی کی بات کر سکتا ہے اس لئے سماج کا یہ گندہ اور بدبودار کیڑا ہری دوار میں بھی مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کرتا ہوا نظر آیا ۔


 

اس دھرم سنسد میں ادھرمی کی بات کرنے والے صرف اشونی اپادھیائے ہی نہیں تھے بلکہ بی جے پی مہیلا مورچہ کی لیڈر ادیتا تیاگی، ہندو رکشا سینا کے صدر سوامی پربودھا نند گیری، ہندو مہا سبھا کی جنرل سکریٹری سادھوی انا پورنا عرف پوجا شکن پانڈے، مذہبی رہنما سوامی آنند سوروپ اور ساغر سندھو مہاراج جیسے کئی سیاہ چہرے سماج اور معاشرے کو بدنما کرتے ہوئے نظر آئے ۔


ہندو رکشا سینا کے صدر سوامی پربودھا نند گیری زہر افشانی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ہمیں تیاری کرنی ہوگی اور میں آپ کو بتاؤں گا کہ کیا کرنا ہے ، یہ ملک اب ہمارا ملک ہے آپ نے میانمار میں دیکھا کہ ہندوں کو بھگایا گیا، انہیں مارا گیا، دہلی کی سرحد پر مارا گیا اور انہیں لٹکایا گیا اب حل یہی ہے کہ یا تو مرنے کی تیاری کرو یا مارنے کے لئے تیار ہو جاؤ، اب ہر ایک ہندو کو چاہے وہ پولیس میں ہو سیاست میں ہو یا فوج میں ہو ہر ایک ہتھیار اٹھانا چاہئے اور یہ صفائی مہم چلانا چاہئے" ۔

یہ سوامی پربودھا نند وہی شخص ہے جس کے گہرے تعلقات اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدیتیہ ناتھ اور ہری دوار کے سابق بی جے پی لیڈر نریش شرما کے ساتھ ہیں ۔ یہ وہی سوامی ہے جس نے کئی بار سماج میں زہر گھولنے کی کوشش کی 2017 میں کہا" ہندؤں کو آٹھ بچہ پیدا کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے سماج کو بچا سکیں" 2018 میں کہا کہ" صرف مسلمان ہندو عورتوں کا ریپ کرتے ہیں"، یہ وہی مہاشئے ہیں جس نے شدت پسند لیڈر یتی نرسمہا نند سرسوتی کے ساتھ ایک ویڈیو میں کہا کہ" اگر ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں انسانیت زندہ رہے تو ہمیں ان جہادیوں کو صاف کرنا ہوگا" ۔

   اتنا ہی نہیں اس دھرم سنسد میں ادھرمی کی بات کرنے والی پوجا شکن پانڈے نے بھی ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کرتی نظر آئی جو کہہ رہی تھی کہ" مسلمانوں کا قتل عام کرنا ہوگا ورنہ کوئی چارہ نہیں ہے" وہیں ایک اور مہاشئے سوامی آنند سوروپ جو کہ مذہبی رہنما ہیں وہ بھی مسلمانوں کے قتل عام کے بارے بیانات دیتے نظر آئے اور کہہ رہے تھے کہ" اس دھرم سنسد کا فیصلہ بھگوان کا فیصلہ ہوگا اور حکومت کو سننا پڑے گا اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم ایک ایسی جنگ چھیڑیں گے جو 1857 کی بغاوت سے بھی خوفناک ہوگا " 

اب سوال یہ ہے کہ جب یہ دھرم سنسد چل رہا تھا، جس میں ملک کے ایک مخصوص طبقے کے خلاف قتل عام کی حلف برداری ہو رہی تھی، مارنے اور مرنے کی بات ہو رہی تھی، ملک کے آئین و دستور کو بدل کر اسے بھگوا رنگ میں تبدیل کرکے پیش کیا جا رہا تھا تو اتراکھنڈ کی حکومت کہاں مصروف تھی ؟ انتظامیہ کہاں تھا ؟ پولیس افسران کہاں تھے ؟ دوسرا سوال یہ کہ اس دھرم سنسد کو آرگنائز کرنے کی اجازت کہاں سے ملی ؟ تو کیا اب یہ مان لینا چاہئے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے شر پسندوں کو کھلی اجازت مل گئی ہے تاکہ وہ سماج اور معاشرے میں نفرت و عداوت اور قتل و غارتگری کا ننگا ناچ دکھائیں، تو کیا اب یہ مان لینا چاہئے کہ بی جے پی لیڈروں کو ملک کے آئین و دستور کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور اسی لئے وہ ملک کے آئین کو بدلنا چاہتے ہیں 


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی