ماضی کا احتساب اور مستقبل کا لائحہ عمل ؛ یہی ہے زندہ قوموں کی نشانی
طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ
سال کے اختتام پر ہر تاجر اپنی تجارت کا جائزہ لیتا ہے ۔ دوکان والے اپنی دوکان کا جائزہ لیتے ہیں ۔ کاروبار والے اپنے کاروبار کا جائزہ لیتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں کہ ایک تاجر کو اپنے کاروبار کا جائزہ لینا چاہئے تاکہ سال گزشتہ کتنا منافع کمایا اور کتنا نقصان ۔ ایک تاجر جب اپنی دوکان کا محاسبہ کرتا ہے اور غور و فکر کرتا ہے تو نئے نئے تجربات سے روشناس ہوتا ہے ۔ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کرکے مستقبل میں ترقی کی راہیں ہموار کرتا ہے لیکن اگر کوئی اپنا محاسبہ نہیں کرتا، اپنا احتساب نہیں کرتا، اپنا جائزہ نہیں لیتا، ماضی کی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتا تو ایسا شخص مستقبل میں ایک کامیاب تاجر نہیں کہلا سکتا اور وہ ہمیشہ نقصان اٹھاتا رہتا ہے ۔
اسی طرح ایک مومن کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے گزرے ہوئے سال پر اپنا محاسبہ کرے ، اپنی زندگی کا جائزہ لے اور یہ جائزہ دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے ہو ۔ دینی اعتبار سے یہ جائزہ لے کہ سال گزشتہ عبادات میں کتنی کوتاہی ہوئی ، نمازیں کتنی پڑھیں اور کتنی قضا ہوئیں، روزے کتنے رکھے اور کتنے قضا ہو ئے، تلاوت قرآن کا کتنا اہتمام کیا، ذکر و اذکار کا کتنا اہتمام کیا اور کہاں کہاں غفلت ہوئی یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح دنیوی اعتبار سے بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
گزرے ہوئے سال کا جائزہ لینے کے بعد آگے کا لائحہ عمل تیار کریں، مستقبل کی پلاننگ کریں کہ آگے کیا کرنا ؟ کیسے کرنا ہے ؟ جو قومیں یا تنظیمیں منصوبہ بندی کرتی ہیں وہی بند گلی کے راستوں کو کھولنے پر کامیاب ہوتی ہیں اور جو قومیں یا تنظیمیں آگے کی پلاننگ نہیں کرتی ہیں تو دوسری قومیں ان کا محاسبہ اور مواخذہ کرتی ہیں اور جب دوسری قومیں ان کا محاسبہ کرتی ہیں تو نتیجہ ہلاکت خیز ہوتا ہے لہذا ہمیں ماضی کا احتساب کرنا چاہئے اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔
ایک تبصرہ شائع کریں