مسلم لڑکیوں میں ارتداد کی لہر : اسباب اور حل | طاہر ندوی

 مسلم لڑکیوں میں ارتداد کی لہر : اسباب اور حل 

طاہر ندوی 

امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ 



اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کروڑوں نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان نعمتوں میں سب سے عظیم نعمت و دولت ایمان کی نعمت ہے اگر ایک انسان کو دنیا کی ساری نعمتیں دے دی جائیں لیکن ایمان نہ ملے تو وہ دنیا کا سب سے محروم شخص ہے لیکن ایک انسان کو ایمان کی نعمت مل جائے اور دنیا کی تمام نعمتوں سے محروم کر دیا جائے تو ایسا شخص دنیا کا سب سے خوش نصیب اور اللہ و رسول کی نگاہ میں سب سے محبوب ہے اسی لئے حضرات انبیاء علیہم السلام کہ باوجود کہ ان کا ایمان غیر متزلزل تھا پھر بھی اپنے ایمان کی فکر کرتے تھے اور کفر و ارتداد کے فتنے سے پناہ بھی مانگا کرتے تھے۔


موجودہ دور کے فتنوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو سب سے بڑا فتنہ الحاد و ارتداد کا فتنہ ہے، جس میں روز بروز تیزی آتی جا رہی ہے اور مسلم لڑکے اور لڑکیاں اس کے دام فریب میں پھنستے جا رہے ہیں، اگر اعداد و شمار دیکھے جائیں تو پیروں تلے سے زمین کھسکنے لگے گی اور ہوش و حواس جواب دیتے نظر آئیں گے 25 دسمبر 1926 کو " انگلش مین" میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں لکھا تھا کہ شردھانند نے بیس لاکھ مسلمانوں کو مرتد کیا جبکہ 1927میں پٹنہ کے مہا سبھا کے اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ مہا سبھا کی کوششوں سے اب تک صوبہ بنگال میں پچاس ہزار مسلمان مرتد ہو چکے ہیں۔

( ہمدم 28مئی 1927 )



ایسی کئی خبریں اخباروں کی زینت بنتی رہی ہیں کہ آج فلاں محلے اور فلاں گھر کے افراد نے مذہب اسلام کو چھوڑ کر ہندو مذہب کو قبول کرلیا ہے ایسے سینکڑوں واقعات آپ کو دیکھنے کو مل جائیں گے پہلے ارتداد کی تیز لہروں کا شکار مسلم نوجوان ہوا کرتے تھے اور اب مسلم لڑکیوں کو ارتداد کا شکار بنایا جا رہا ہے اور اس کے لئے باضابطہ ٹریننگ دی جارہی ہے، لو جہاد کے نام پر ہندو شدت پسند لوگوں کو ورغلایا جارہا ہے، ان کے ذہنوں میں مسلم دشمنی کو فروغ دیا جا رہا ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر ان کی عصمت و عفت کو تار تار کر دے، ان کے خاندان کی عزت سر بازار نیلام کر دے اور مسلم معاشرے کو بدنام کر دے کہ وہ منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔


آج سے تقریباً تین سال قبل " ماہنامہ نقوش عالم بنگلور " میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں لکھا تھا کہ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم بچیوں کو پیار و محبت کے نام پر ورغلایا جارہا ہے ہندو شدت پسند جماعتیں اس کے لئے باضابطہ طور پر لڑکوں کو ٹریننگ دے رہی ہیں ۔

14اگست 2018 کو" راجستھان پتریکا " میں ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے جس کا عنوان ہے " مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے پر ملیں گے ڈھائی لاکھ روپے اور چھ مہینے تک کھانا فری " رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت ہندو یووا مورچہ ، مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے والے ہندو نوجوانوں کو نہ صرف یہ کہ انعام و اکرام سے نوازے گا بلکہ انھیں تحفظ بھی فراہم کرے گا یہی خبر اسی تاریخ کو " جن ستا " اور دوسرے اخبارات میں بھی شائع ہوئی ۔



اسباب و عوامل : 

ارتداد کے اسباب و عوامل پر اگر نظر ڈالی جائے تو بنیادی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے ملک میں مخلوط نظام تعلیم نے ارتداد کو پنپنے کا موقع دیا ہے جہاں بلا تفریق مذہب ہر کسی کو پڑھنے کی اجازت میسر ہوتی ہے، جہاں بغیر کسی رکاوٹ کے کسی سے بھی تعلقات آسانی سے بنائے جا سکتے ہیں، بغیر کسی بندشوں کے کہیں بھی آنے جانے کی سہولیات موجود ہیں، جب کالج یا یونیورسٹی کے کیمپس میں اس طرح کی آزادی دی جائے گی تو ظاہر ہے آزادی کی لت لگنے کے بعد وہ انسان اپنے مذہب کی بندشوں اور بیڑیوں کو توڑ کر اور اپنے مذہب سے آزاد ہو کر زندگی گزارنے کو ترجیح دے گا۔ 

دوسری وجہ یہ کہ جن گھرانوں کی بچیاں ارتداد کی شکار ہوئی ہیں ؛ ان گھروں کا حال یہ ہے کہ وہ دین کی بنیادی اور اساسی تعلیمات سے بھی محروم ہوتے ہیں، جب والدین ہی بے دین ہوں اور گھر کا ماحول بھی مکس کلچرل کا ہو، جہاں ہر ایرے غیرے نتھو کھیرے کو آنے جانے کی اجازت ہو تو اس گھر کی بچیاں کیوں کر اسلام اور کفر کے درمیان فرق کر سکیں گی؟ کیوں کر اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کر سکیں گی؟ ان کا ارتداد کا شکار ہونا تو لازمی ہے ۔

تیسری وجہ یہ کہ انہیں عیسائی مشنریز جیسے کانوینٹ اسکولوں میں داخل کر دینا یہ سمجھتے ہوئے کہ یہاں دیگر اسکولوں کے مقابلے میں بہتر تعلیم کا نظام ہے جس سے ان کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے یقیناً ایسے اسکولوں میں مستقبل روشن تو ہو سکتا ہے لیکن مذہب اندھیرے میں چلا جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لڑکے اور لڑکیاں بڑی آسانی سے ارتداد کا شکار ہو جاتی ہیں ۔



حل کیا ہے ؟

سب سے پہلے مخلوط نظام تعلیم کی بجائے علحیدہ نظام تعلیم کا انتظام کریں جو صرف لڑکیوں کے لئے خاص ہو، انہیں اسلام کی بنیادی عقائد سے روشناس کرائیں، اسلامی تعلیمات سے مزین کریں، اسلامی اقدار سے متعارف کرائیں، انہیں اسلام اور کفر کا فرق سمجھائیں اور بتائیں کہ مذہب اسلام سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی نعمت نہیں ہے اور یہ بھی سمجھائیں کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ایک مسلمان لڑکی کسی کافر و مشرک سے نکاح کرے، انہیں صحابیات کے واقعات سنائیں اور بتائیں کہ جب حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا بیوہ ہوئی تو مدینہ منورہ کے رئیس زادے ابوطلحہ نے شادی کا پیغام بھیجا تھا، حضرت ام سلیم مسلمان تھیں لیکن ابوطلحہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، حضرت ام سلیم نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ اے ابوطلحہ اللہ کی قسم آپ کی وہ حیثیت ہے کہ آپ کا پیغام رد نہ کیا جائے لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کافر ہیں اور میں مسلمان ہوں اور کسی مسلمان عورت کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ کسی کافر کے ساتھ شادی کرے۔ 

ایسے اسکولوں اور کالجوں میں جانے نہ دیا جائے جہاں مشرکانہ عقائد کے درس دئیے جاتے ہوں، تعلیم کے نام پر دیوی دیوتاؤں کی محبت اور عظمت کو دل میں بٹھایا جا رہا ہو، انسانیت ہی کو سب سے بڑا مذہب گردانا جا رہا ہو، جہاں سیکولر نظام ہی کو دنیا کا سب سے بہتر نظام بتایا جا رہا ہو ایسے اسکولوں اور کالجوں سے اپنے بچوں اور بچیوں کو دور رکھیں تاکہ دین و دنیا سلامت رہے، ایمان و یقین باقی رہے ۔ 






1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی