Mother's day by Tahir Nadwi

Mother's day

مؤرخہ 9 مئی 2020

Tahir Nadwi



مجھے محبت ہے اپنے ہاتھوں کی تمام لکیروں سے
نہ جانے کون سی انگلی پکڑ کے ماں نے چلنا سکھایا ہوگا
محترم قارئین!
والدین کے ساتھ ہمارا سلوک و معاملہ ایک ایسی کہانی اور تلخ حقیقت ہے جس کو الفاظ میں ڈھالنے اور پرونے کا کام تو ہم انجام دیتے ہیں لیکن اسکو پڑھنا اور انجام تک پہنچانے کا کام ہماری اولاد کرتی ہے۔ دنیا میں بےشمار لوگ ہیں جو محبت و عقیدت کے بدلے احسان ، مہربانی اور ہمدردی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ لیکن ماں محبت کی طلبگار نہیں ہوتی،  مصائب و تکالیف کا شکوہ و شکایت اپنی زبان پر نہیں لا تی، آنسوؤں اور غموں کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتی، حالت حمل اور وضع حمل کے دوران اپنی پریشانیوں کا تذکرہ علی الاعلان نہیں کرتی، اولاد کی خاطر نیندیں قربان کرنے کا صلہ نہیں مانگتی، شدید سرد راتوں میں اولاد کی خاطر جاگنا، اس کے لئے اپنی راحت و آرام کو قربان کرنا ،  نم آلود بستروں کو جائے استراحت بنانا اور بچے کو نرم و گرم کے ساتھ ساتھ ملائم اور گدگدا بچھونا فراہم کرنا، تکلیف سہہ کر بھی مسکرانا، غم سے نڈھال ہوکر بھی درد کا درماں بننا ، درد کا پہاڑ سر پر اٹھاکر اولاد کو خوشیاں فراہم کرنا،  سورج کی تپش اور اسکی گرمی کو برداشت کرنا اور اولاد کو سورج کی تیز کرنوں اور شعاعوں سے بچانا، اولاد کی غلطیوں اور سارے الزامات کو بخوشی اپنے سر قبول کر لینا ، خود ہی روٹھنا اور خود ہی منانا اور نہ ماننے کی صورت میں اس کے سرہانے بیٹھ کر منتیں و سماجتیں کرنا  اور اس وقت تک بیٹھے رہنا جب تک وہ مان نہ جائے اور اس کے گلے لگ کر چمٹ نہ جائے!
کسی نے کیا خوب کہا  ہے۔۔۔۔۔۔
یہ جو ماں کی محبت ہوتی ہے نا
یہ سب محبتوں کی ماں ہوتی ہے
نیز
خفا ہو کر بھی فکر مند رہنا
یہ ماؤں کی ادائیں ہوتی ہیں۔۔



ماں وہ ہستی ہے جس کی پیشانی پر عظمت و رفعت ، الفاظ میں محبت و ہمدردی ، آغوش میں سکون و قرار، دل میں دنیا جہان کی وسعتیں و برکتیں ،  ہاتھوں میں  شفقت اور پیروں تلے جنت ہے !
حیف صد حیف ایسی اولاد پر جو اپنے والدین کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھتے ہیں، انکی عظمتوں کو پامال کرتے ہیں، انکی متانت و سنجیدگی اور قدر و منزلت کو مجروح کرتے ہیں،  اور عمر بھر کی لا زوال پیارو محبت، الفت و شفقت،  ہمدردی و خیر خواہی، اور عظیم قربانیوں کو فراموش کرکے چند کھوٹے سکوں اور پُر فریب خوابوں کی تعبیر و تکمیل کی خاطر اولڈ ایج ہوم کے سپرد کردیتے ہیں۔
کاش۔۔۔۔ آنکھوں سے  بہتے مسلسل  موتیاں اور اسکے  نتیجے میں  چہرے  پر عیاں منقش دھاریاں اور جھریاں، آنکھوں کے سامنے خیمہ زن گھٹا ٹوپ اور  سیاہ بادلوں کا ڈیرہ، خواہش دید میں تڑپتی، مچلتی اور آہ بھرتی سسکیاں، کاش یہ سب تمہاری دید کے حوالے کردیا جاتا، تو ان  احساسات و جذبات کو نظر انداز نہ کرتے، قساوت قلبی، بدبختی،  بے مروتی ، لا تعلقی اور انتہا درجے کی سنگدلی کا شکار نہ ہوتے،" ختم الله على قلوبهم " کا مصداق نہ بنتے، "ولا تقل لهما أف ولا تنهرهما " تم پر صادق نہ آتا۔
ماؤں کا عالمی دن منانا بس ایک فیشن سے زیادہ کچھ نہیں، یہ ماؤں کی لازوال و لامحدود انمول محبت کے ساتھ ایک بےہودہ مذاق اور انتہا درجے کی توہین ہے، یہ اغیار کے طور و طریق اور رسم و رواج ہیں جہاں رشتوں ناطوں کا تقدس پامال اور ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا ،  رشتوں کی ساری حدیں اور دیواریں نیست و نابود ہو چکی ہیں،  لیکن  ہمارا معاملہ رسم و رواج سے آگے بڑھ کر عبادت اور خدمت کے درجے کا ہے اور بحیثیت مسلمان انکی اطاعت و فرمانبرداری ہر آن اور ہر لمحہ ہم پر لازم ہے!
یہ کہاں کا انصاف اور کیسا فیصلہ ہے کہ کسی ایک یوم کو مختص کرکے ساری توجہات و عنایات اور محبتیں نچھاور کردیں پھر سال بھر کے لئے اس طرح فراموش کردیں جیسے کوئی بھولی بسری باتیں ہوں ۔
ہمارے معاشرے اور سوسائٹی کے کچھ محروم القسمت اور شقیق القلب  ایسے لوگ ہیں جو آج غیروں کی تقلید میں اپنی ضعفِ بصارت اور جہالت و ناواقفیت کی بناء پر اس قدر اندھے اور بہرے ہو چکے کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی اقدار اور صدیوں پرانی روایات کو مسخ کر د ینا چاہتے ہیں جبکہ ہماری اقدار اور روایات اس کی اجازت نہیں دیتی اور نہ یہ ماں  جیسی عظیم ہستی کے شایان شان ہے۔
یاد رکھیں! دنیا و آخرت کی بھلائی اور فلاح و بہبودی ماں کی دعاؤں کی مرہونِ منت ہے اس لئے اس عظیم ماں سے جتنی دعائیں سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیجئے!
پھر نہ کہنا کہ ہمیں خبر نہ تھی.........

طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال
ہلدی پوکھر جھارکھنڈ





Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی