میری ڈائری قسط نمبر 3

 میری ڈائری

قسط نمبر 3

مؤرخہ 6 مئی 2020



یہ پیارو محبت، عزت و تکریم، تعریف و تحسین مجھے کیوں کر راس آتی۔ اصل خطاکار و سزاوار تو میں تھا۔ترک تعلیم کا ارادہ، ہدایت کے بدلے گمرہی کا انتخاب، آخرت کے مقابلے دنیاوی عیش و عشرت کی حصول یابی، دائمی اور لامحدود زندگی کے مقابلے عارضی اور فنا ہو جانے والی زندگی کے لئے تگ و دو، عشقِ حقیقی کے مقابلے عشقِ مجازی کی تڑپ یہ سب میرے ذاتی فیصلے تھے اور کیوں کر میں کسی کو اپنا فیصل اور حاکم بناتا ۔ میں جس مرض کا شکار اور جس وبا کا اسیر تھا وہاں طبیب بھی اور مریض بھی میں ہی تھا میں خود ہی اپنی دوا تجویز کرتا اور ضرورت پڑنے پر آپریشن بھی۔

 میری زندگی ایک بے لگام گھوڑے پر سوار ہوکر نہایت تیزگامی سے اپنے منزل مقصود کی طرف رواں دواں تھی جیسے وہ منزل ایک خوبصورت نما خواب نہایت پر کشش اور جاذبیت کا مظہر ہو جبکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ وہ منزل پُرخار صحراء و بیابان، پُر خطر جنگلات اور ویران پڑی وادیوں سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ 

شاید یہ میرے آقا و مولیٰ ( جل جلالہ) کی طرف سے ابتلاء و آزمائش تھی چونکہ میں نے خود ہی ان نعمتوں کی ناقدری کی تھی، والدین اور عزیزو اقربا کی شفقت و محبت کو عارضی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے فروخت کر آیا تھا، ساری منت و سماجت اور دعاؤں کو دنیا کی ایسی رذیل ترین بازار میں فروخت کر آیا تھا جہاں علاوہ اشیاء خوردونوش کے انسانی جذبات و احساسات کی منڈی اپنے آب و تاب کے ساتھ رواں دواں تھی، جہاں پیارو محبت اور انسانی جذبات و احساسات کی بولیاں لگائی جاتیں، عزیزو اقربا کو ترازؤوں میں تولا جاتا، امانت داری و راست بازی کی اہمیت کوڑے کرکٹ سے زیادہ کچھ نہ تھی اور ہم جیسے احسان فراموش، ضمیر فروش، الفت و محبت کے سوداگر، انسانی قدروں کو تار تار کرنے والے ان کا گاہک ہوا کرتے 

جاری۔۔۔۔۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی