میری ڈائری قسط نمبر 5

 میری ڈائری

قسط نمبر 5

مؤرخہ 9 مئی 2020



آج اپنی قسمت پر محفلِ ماتم سجانے پر دل بضد تھا ، اور میں۔۔۔۔۔۔دل کے ہاتھوں مجبور، آج اشکباری کرنا تھا اپنی قسمت اور فیصلے پر، ماتمی مجلس آراستہ کرنا تھا اپنی نا اہلی، نا لائقی، اور ناشائستگی افعال و اعمال پر، آج مجھے رونا تھا اور خوب رونا تھا ۔

چنانچہ میں اٹھ کھڑا ہوا اور نہایت تیزگامی سے چل پڑا اور پھر چلتا ہی رہا یہاں تک کہ آبادی سے کوسوں دور نکل گیا ، جہاں نہ کوئی چہل پہل، شور و شرابہ، اور نہ کوئی چیخ و پکار تھی ، ہر طرف بس خاموشیاں طاری تھیں ، ویران پڑی آبادیاں، سنسان علاقے اور کھنڈرات کا مرکز، ہاں! یہ شہر خموشاں ہی تھا ، جہاں کے باشندے خاموش مزاجی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں، جہاں لوگوں کو تکلم کی اجازت نہیں دی جاتی، جہاں لوگ اپنے عزیزوں کو بے یار و مددگار اپنے پیاروں کو بے آسرا چھوڑ کر چلے گئے، اور اس انداز سے گئے کہ پھر کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔

شاید میں اسی جگہ کا متلاشی تھا کہ جب اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کا رجسٹر کھول کر رونا چاہوں تو مطلب پرستوں اور خود غرضوں کو شماتت اور جگ ہنسائی کا موقع میسر نہ ہو۔ 

چنانچہ شہر خموشاں کا عارضی مکیں بن کر ایک گوشے کو لازم پکڑ ا اور اپنے گناہوں کا اعتراف، نافرمانیوں کا اقرار، معاصی و جرائم کا اظہار کرتا چلا گیا اور خوب روتا رہا ، گڑ گڑا تا رہا، آہ و فغاں کرتا رہا۔

 ابھی چار سالہ گناہوں کا بوجھ ہلکا نہیں ہوا تھا کہ اچانک

ایک آہٹ سی سنائی دی پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک عجیب سی ہلچل میرے اردگرد طواف کرنے لگیں شاید وہ کہنا چاہتی ہوں کہ۔۔۔۔۔ 

اے اللہ کے بندے ہم پر رحم فرمائیں اور اپنا راستہ لیں ہمیں ڈر ہے کہ آپکے گناہوں کی نحوستیں ہم پر نہ آ پڑے۔

بے چارہ مرتا کیا نہ کرتا۔ میں نے اپنا راستہ لیا اور اپنی گمشدہ منزل کی تلاش و جستجو میں نکل پڑا !

جاری۔۔۔۔۔



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی