میری ڈائری قسط نمبر 11

 میری ڈائری قسط نمبر 11

مؤرخہ 16 مئی 2020

Tahir Nadwi


اس مردِ صالح کی رفاقت میرے لئے کسی لعل و زمرد سے کم نہ تھی، بلکہ میری کل کائنات کا ماحصل اس مردِ مومن کی رفاقت تھی۔


آج میرے مقدر کے ستارے عروج پر تھے اور میں اپنی قسمت پر نازاں و فرحاں۔


اور عجب بات تو یہ تھی کہ میری محرومیوں اور ناکامیوں کے سائے موجِ تلاطم کا شکار ہو چکے تھے۔


میری دنیا اس وقت بدل گئی جب وہ میرے شانے پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا:


بیٹے! اللہ نے عزت کو علم سے وابستہ کردیا ہے، اگر تم علم حاصل کرلو تو دنیا وما فیہا تمھارے قدموں تلے اپنی ایڑیاں رگڑ نے پر مجبور ہونگی۔


بیٹے! تمھاری علمی لیاقت و صلاحیت، صلاح و تقویٰ، عمل میں اخلاص و للّٰہیت، دل میں ہمدردی و خیر خواہی، اور زباں میں حلاوت و شیرینی، تمھارے اندر مقناطیسیت پیدا کردے گی اور بندگانِ خدا پروانہ وار تیری اور کھینچے چلے آئیں گے۔


بیٹے! تم دیکھوگے کہ تمھاری آمد کی خاطر یہ لوگ اپنی پلکیں بچھا رہے ہوںگے، اور خواہشِ دید میں انکی نگاہیں پُرنم ہوں گی۔


بیٹے ! تم دیکھوگے کہ تمھاری مجلس میں یہ با ادب بیٹھیں گے، نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی،اور زبانوں پر گہری خاموشی طاری ہوگی ۔


بیٹے! تم ان کی نگاہوں میں اپنے لئے عزت و احترام، شفقت و محبت، اور فخر و غرور دیکھوگے۔


بیٹے! اہلِ علم و دانش دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں ، انکی حکمرانی لازوال و لامحدود ہوتی ہے، اور انکی سلطنت و بادشاہت تا ابد قائم و دائم رہتی ہیں۔


ان کا لفظ لفظ ، میرے سینے کو پارہ پارہ کرکے دل کو آباد ، اور حرف حرف ، قلب و جگر میں جاگزیں ہو رہا تھا۔


 ناصحانہ و خیر خواہانہ اندازِ گفتگو، میرے دل کی بنجر زمینوں کو سیرابی، دماغ کو تازگی، بے نور آنکھوں کو بینائی، قلب و جگر کو معطر، جسم و جاں کو طاقت و توانائی، فراہم کر رہا تھا۔


  ادھر میری ہمت جواب دے چکی تھی، آنسوؤں کو ضبط کرنا مشکل تھا ، دل میں ایک طوفان بپا تھا، اندرون قلب سب کچھ زیر و زبر ہو چکا تھا۔ 


بالآخر : 


میں بے اختیار دستِ مبارک کو چومنے لگا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔


انھوں نے میرے سر کو اوپر اٹھایا ، مجھے گلے سے لگا کر 

میری جبینِ نیاز کو بوسہ دیا اور فرمایا :


بیٹے! حصولِ علمِ دین کے لئے رختِ سفر باندھ لو، اور اپنی تعلیم مکمل کرو، اللہ تمھارا حامی و ناصر ہو۔


ہدایت کی روشنی ، ایمان کا نور، قرآن و سنت کی تعلیم، اللہ اور اسکے رسول سے عشق و محبت، دینِ اسلام پر ثابت قدمی اور عزمِ مصمم کا پہاڑ لیکر میں وہاں سے لوٹا اور اپنی گمشدہ منزل کو تلاش کرنے لگا!

جاری۔۔۔۔۔۔














Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی