میری ڈائری قسط نمبر 10
مؤرخہ 15 مئی 2020
باضابطہ جلسہ کا آغاز ہو چکا تھا ، اور لوگ پروانہ وار جلسہ گاہ کی طرف جوق در جوق چلے آرہے تھے ، دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آنکھوں کے
سامنے خیمہ زن ہو گیا۔۔۔
صفحئہ منصہ پر جلوہ افروز ، درخشندہ و تابندہ ستاروں کے مانند، جبینِ نیاز پر عیاں سجدے کے نشانات، چہرے سے نمایاں طور پر ظاہر ہوتے سکون و اطمینان، الفاظ سے
رونما ہوتے عشقِ حقیقی کی داستان،
سحر بیانی کے ذریعہ دل کی دنیا پر حکمرانی کرنے والے علماء و خطباء، اور دل کی دنیا کو مسخر ، اور گرویدہ
بنانے والے اولیاء و صلحاء،
اور بارگاہِ ایزدی میں شرفِ قبولیت سے ہمکنار ، عشقِ
رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سرشار،
اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندوں میں وہ ایک ۔۔۔۔۔
جاذبِ نظر، توجہات کا مرکز، پُر شکوہ چہرہ، قلب و جگر
کا شہ پارہ،
مردِ مومن بھی تھا ۔۔!!
جس کا وجود صفحئہ منصہ کو مزین اور سامعین کی آنکھوں کو فرحت و شادمانی اور دلوں کو معمور کر رہا
تھا۔۔۔۔!!
جب اللہ کا وہ نیک اور برگزیدہ بندہ صفحئہ منصئہ شہود پر جلوہ گر ہوتا ہے ، اور نصیحت آمیز و رقت انگیز سحر بیانی کے ذریعے بندگانِ خدا سے مخاطب ہوتا ہے تو ان کی
نگاہیں اٹھی کی اٹھی رہ جاتی ہیں،
آنکھوں سے چشمِ آب جاری و ساری ہو کر دل کی بنجر
زمینوں کو سیراب کرنے لگتا ہے، دل کی ویرانیاں اور
تاریکیاں کافور ہونے لگتی ہیں،
مردہ دلوں کو زندگی ، ایمان میں ترو تازگی، اعمال میں پختگی، ذکر و اذکار میں دل لگی، اہل اللہ سے وابستگی، سنتِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے عقیدت و محبت، صحابہ کرام ( رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ) سے الفت و شفقت، اور آبِ حیات کا چشمہ میسر ہو جاتا ہے۔
بات کو مختصر کرتے ہوئے وہ مردِ مومن اپنی نشست سے
اٹھا اور روانگی کی کوشش کرنے لگا ۔
چونکہ پروگرام کے نظم و نسق کی ذمہ داری میرے سپرد تھی، میں فوراً سے پیشتر پلک جھپکتے ہی ان کے پاس
جا پہنچا ۔
اور عرض کیا :
حضرت ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ کے ہمراہ آپ کے گھر تک چلنا چاہوں گا اور یہ میرے لئے بڑی
سعادت اور خوش نصیبی کی بات ہوگی۔۔۔۔
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں