نیل کا مسافر : میرے مطالعے کی روشنی میں


✍️طاہر ندوی

امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر

امام حسن البناء شہید



یہ کتاب امام حسن البناء شہید رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کی ایک ایسی کہانی پر مبنی ہے جس نے قارئین پر اپنا گہرا اثر ڈالا اور ذہنوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ایک مرد درویش نے کس طرح انسانی دلوں میں اسلامی تعلیمات، اسلامی تمدن، اسلامی شعار، ایمانی حرارت، دینی شوق و رغبت اور جذبہ جہاد کو راسخ کر دیا ۔

پیدائش 

امام حسن البناء کے والدین مصر کے ایک دور دراز گاؤں شمشیرہ سے ہجرت کرکے دریائے نیل کے کنارے آباد " محمودیہ " نامی بستی میں آکر رہائش پذیر ہوگئے جہاں اکتوبر 1906 کی ایک خوش گوار صبح ایک بڑھیا شیخ احمد کے گھر آتی ہے اور مبارک باد دیتے ہوئے کہتی ہے کہ خدا نے آپ کو ایک بیٹا عطا کیا ہے، والد محترم پیدائش کے ساتویں روز بیٹے کا عقیقہ کرتے ہیں اور اس کا نام حسن رکھتے ہیں ۔
نیل کا مسافر


حسن البناء کا گھرانہ دیہاتی بود و باش کے اندر علم و فضل اور اسلامی ماحول سے آراستہ تھا ۔ شیخ احمد نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتے۔ کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی کے واقعات سناتے ، کبھی بزرگانِ دین کی شجاعت و بہادری، عدل و انصاف اور جذبہ جہاد کے واقعات سناتے اور اسے بھی ویسا ہی بننے کی ترغیب دیتے ۔

تعلیم و تربیت 

حسن البناء جب سات سال کے ہوئے تو والد محترم نے محمودیہ کے ایک دینی درس گاہ میں داخل کروا دیا، یہ ایک اسلامی اور دینی درس گاہ تھی جس کے منتظم استاد محمد زہران تھے جو طلباء کی دینی و اخلاقی تربیت پر زور دیتے تھے ، وہ ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر محاسبہ کرتے اور ان کے اچھے کام پر انعام بھی دیتے ۔
حسن البناء بچپن سے ہی نماز و روزہ کے پابند تھے، روزانہ سحری کے وقت بیدار ہوتے ، تہجد کی نماز پڑھتے ، پھر فجر پڑھ کر چھ بجے تک قرآن کریم کی تلاوت کرتے، چھ سے سات تفسیر و حدیث کا مطالعہ کرتے یہ روزانہ کا معمول تھا اور اس کے بعد مدرسہ کے لئے روانہ ہو جاتے ۔
استاد محمد زہران کی درس گاہ میں ابھی چار سال ہی گذرے تھے کہ استاد زہران مدرسے کی سرگرمیوں کو ترک کرکے دوسرے علمی کاموں میں مصروف ہوگئے اور نووارد استاد کے اندر استاد زہران جیسی کوئی بات نہ تھی  یہ دیکھتے ہوئے حسن البناء نے اپنا داخلہ مڈل سکول میں کروا لیا۔

امام حسن البناء کی ایام طفولیت پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس میں بہت سی سرگرمیاں نظر آتی ہیں جیسے" تنظیم برائے اصلاح اخلاق " جس کے صدر حسن البناء کو بنایا گیا تھا جس کے اغراض و مقاصد کچھ اس طرح تھے کہ طلباء کو گالی گلوج سے روکنا، والدین کے ساتھ بد سلوکی سے روکنا، آپس کے لڑائی جھگڑے سے روکنا تھا۔ اسی طرح ایک تنظیم " انجمن انسداد محرمات " ( حرام کاموں سے روکنے والی تنظیم ) جس میں  پر اسرار خطوط کے ذریعے وہ لوگوں کو حرام کاموں، بد اعمالیوں اور منکرات و فواحش پر متنبہ کرتے تھے ۔
ضلعی تعلیمی بورڈ نے محمودیہ کے مڈل سکول کی تنزلی کرکے اسے پرائمری سکول میں تبدیل کر دیا تھا اب حسن البناء کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو وہ سکندریہ کی دینی درسگاہ میں داخل ہو کر عالم کورس کرے یا پھر " دمنہور " کے ٹیچر ٹریننگ سکول میں داخلہ لے کر تین سالہ ٹیچر کورس مکمل کرے ۔ چنانچہ اس نے ٹیچر ٹریننگ سکول میں داخلے کے لئے درخواست جمع کر دی اس کے بعد داخلے کی تحریری و تقریری امتحان میں اعلیٰ نمبرات سے پاس ہو کر ٹیچرز ٹریننگ سکول کا ایک طالب علم بن گیا ۔
حسن البناء نے آزادی کی قومی تحریک میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر بھی پوری توجہ دی ۔ ٹیچرز ٹریننگ سکول کے ڈپلومے کے امتحان کا نتیجہ برآمد ہوا تو وہ سکول میں اول اور پورے ملک میں پانچویں نمبر پر آیا تھا اب اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے اس نے مصر کے ایک بڑے ادارے دارالعلوم قاہرہ ( قاہرہ یونیورسٹی ) کا انتخاب کیا ۔ دارالعلوم قاہرہ کے داخلہ ٹیسٹ کا نتیجہ آیا تو حسن البناء کو داخلے کے لئے کامیاب قرار دیا گیا ۔
دو سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ اس عرصے میں اسے قاہرہ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا لیکن جو بھی دیکھا، جس چیز کا بھی  مشاہدہ کیا، سوائے مایوسی کے کچھ نہیں تھا ۔ ایک اسلامی ملک جسے اسلامی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہونا تھا وہاں ماڈرنزم کا چلن عام تھا یہ دیکھ کر حسن البناء کا دل تڑپ اٹھا اور اس نے اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کے لئے اپنے احباب کو مسجد شیخون میں جمع کرنا شروع کر دیا ۔

دعوتی سرگرمیاں 

مسجد میں افراد سازی کا کام کرتے اس کے بعد قہوہ خانوں اور ہوٹلوں کا رخ کرتے جہاں عام مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی انہیں وعظ و نصیحت کرتے ۔ ہر تقریر پانچ منٹ کی ہوتی لیکن انداز اتنا نرالا تھا کہ لوگ بڑے غور و اشتیاق سے ان کی باتیں سنتے ۔
1919 میں سعد زغلول کی قیادت میں انگریزی استعمار کے خلاف بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھے تھے ۔ یہودی اور انگریز کے ایجنٹوں نے مصری قوم کو امت اسلامیہ اور خلافت عثمانیہ سے کاٹنے کے لئے مصری قوم کی تہذیب کے قلابے فرعونی تہذیب سے استوار کردئے۔ فرعونی تہذیب و ثقافت اور شان و شوکت کے گیت گائے جانے لگے حسن البناء یہ دیکھ کر شدید کرب میں مبتلا تھا کبھی وہ جامعہ ازہر کے طلباء سے ملاقاتیں کرتا ، کبھی وفا شعار اور مخلص دوستوں سے ملتا، کبھی جامعہ ازہر کے سابق استاد شیخ یوسف الدجوی سے فریادیں کرتا ، کبھی علماء شہر کے دلوں کو جھنجھوڑتا ، کبھی شہر کے با اثر معززین کو مہمیز لگاتا بالآخر علماء شہر کے ذریعے ایک اسلامی جریدہ " الفتح " کا اجراء عمل میں آیا اور جلد ہی یہ رسالہ جدید تعلیم یافتہ، غیور اسلام پسند نوجوان نسل کے لئے مشعل ہدایت بن گیا ۔ اس جریدے نے ملحد و بے دین لوگوں کے اسلام پر اعتراضات اور شکوک و شبہات کے تار و پود کو بکھیر کر رکھ دیا ۔

جولائی 1927 میں حسن البناء نے دارالعلوم قاہرہ سے شہادۃ العالمیہ ( ایم اے ) کی ڈگری حاصل کرلی ۔ اور جلد ہی وزارت تعلیم نے بطور استاد مصر کے ایک دور دراز شہر " اسماعیلیہ " میں تعینات کر دی ۔ اسماعیلیہ پہنچ کر شہر کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ یہاں لوگ مختلف مسلکوں اور فرقہ بندیوں میں الجھے ہوئے ہیں ۔ آخر کار تمام فرقوں اور گروہوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اس نے " اصحاب قہوہ " کو اپنا مخاطب بنایا اور شہر کے تین بڑے بڑے قہوہ خانوں کو منتخب کرلیا جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود ہوتے تھے ۔
اصحاب قہوہ کے اندر جلد ہی دینی بیداری پیدا ہو گئی ۔ لوگ جوق در جوق نو وارد کے ارد گرد جمع ہونے لگے لیکن جوں جوں درس و اجتماع کی خبریں پھیلتی گئیں مخالفین کی فتنہ انگیزی انگڑائی لینے لگی وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرتے کہ کسی طرح یہ اجتماع ختم ہو جائے اور لوگ بجائے حسن البناء کے ہمارے ہاں جمع ہو جائیں لیکن نو وارد کے نرالے اور سادہ اسلوب کے آگے وہ راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ۔
حسن البناء کو اسماعیلیہ میں منتقل ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا ۔ 1928 کی ایک صبح شہر کے چھ افراد حسن البناء سے ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے ۔ ان کی آواز میں گرج تھی ۔ آنکھوں میں چمک تھی ۔ اور چہروں پر ایمان و عزم کی روشنی دمک رہی تھی ان میں سے ایک نے کہا یا شیخ ! "ہم نے آپ کی تقریریں سنی ہیں ۔ آپ کہتے ہیں کہ اس ملک کے اندر مسلمانوں کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ۔ وہ غیر ملکیوں کے فرمانبردار اور غلاموں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ اسلام کی عزت اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا عملی طریقہ کیا ہے لہذا ہماری سالی ملکیت اب آپ کے نام ہے آپ جس طرح چاہیں اسے اسلام کی سربلندی میں صرف کریں" ۔
حسن البناء نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا" اللہ آپ کے نیک ارادوں کو قبول کرے ۔ ہمارا فرض محنت اور کوشش کرنا ہے ۔ کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ آئیے ہم اللہ سے عہد کریں کہ ہم پورے اسلام کی دعوت دیں گے ۔ اسی دعوت کے اندر وطن کی زندگی اور قوم کی سرخروئی ہے" ۔

اخوان المسلمین کی بنیاد 

ہم باہم" اخوان " بن کر جئیں گے ۔ اسلام کے لئے کام کریں گے۔اسلام کی مکمل دعوت دیں گے۔اور اسلام کی راہ میں جہاد ہمارا شعار ہوگا ۔ ہمارا تشخص اور پہچان ہمارا کردار ہوگا۔ ایک ایسا کردار جس کی لوگ ایک حقیقی مسلمان سے توقع رکھیں۔ ہم آپس میں رشتہ اخوت سے وابستہ ہوں گے ۔ اس لئے ہمارا نام " الاخوان المسلمون " ہوگا اور یوں چھ افراد کے اتحاد سے الاخوان المسلمون کی جماعت قائم ہو گئی ۔
دعوت حق کو ہر جگہ ایسے مخالفین سے سابقہ پیش آتا ہے جو اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالتے رہتے ہیں اور اللہ اس کے ذریعے سے اہل حق کو پامردی اور اہل باطل کی خباثت کو آزماتا رہتا ہے ۔ اسماعیلیہ کے اندر بھی ایسا ہی کچھ ہوا ۔ کبھی کہتے یہ نیا فرقہ ہے ۔ کبھی کہتے کہ یہ چند سر پھرے اور آوارہ مزاج کے نوجوانوں کا گروہ ہے ۔ کبھی مصر کے وزیر اعظم کو یہ کہتے کہ حسن البناء شاہ مصر کے خلاف ہے، وزیر اعظم صدقی پاشا کے خلاف ہے ، حسن البناء ایک خطرناک کمیونسٹ ہے ، روس کے ساتھ اس کے رابطے ہیں۔
کبھی اعلیٰ حکام کو خط لکھتے کہ حسن البناء ایک متعصب مدرس ہے ۔ اپنی کلاس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین تفریق پیدا کر رہا ہے۔ کبھی یہ الزام تراشی کرتے کہ حسن البناء اپنے معتقدین سے کہتے ہیں کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میری عبادت کرو ۔ کبھی شیخ عماد الدین الازہری جیسا شخص جماعت کو توڑنے کی کوشش کرتا ، کبھی اپنی چکنی چکنی باتوں سے اخوانیوں کو ورغلاتا ۔ کبھی اخوان کے خلاف افواہ سازی کا بازار گرم کیا جاتا ۔ گمنام عرضیاں سرکاری افسران کے نام بھیجا جاتا تاکہ کسی صورت اخوان کو بدنام کرکے خود اس پر قابض ہو جائے لیکن اللہ نے ان کی ساری چال بازیوں اور مکاریوں کو انہیں پر پلٹ دیا ۔
اسماعیلیہ میں ان کی پانچ سال کی کوششوں کے نتیجے میں دعوتی و تنظیمی کام مستحکم ہو چکا تھا۔ اب ضرورت تھی کہ مصر کے مرکزی شہر کو اخوانی دعوت کا مخاطب بنایا جائے چنانچہ حسن البناء نے دوستوں سے مشورہ کے بعد اسماعیلیہ سے قاہرہ تبادلے کے لئے محکمہ تعلیم میں درخواست دے دی اور اس طرح اکتوبر 1932 میں انہیں قاہرہ کے ایک سکول میں تبدیل کر دیا گیا ۔

یا شیخ ! "میں اللہ کے راستے میں بیعت کے لئے حاضر ہوں" ۔ اخی ! میں نے پہلے بھی تمہیں کوئی سبز باغ نہیں دکھایا تھا۔ حسن البناء نے عمر تلسمانی سے کہا جو شبین القناطر میں ایڈوکیٹ تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ دعوت حق کے راستے میں علیٰ وجہ البصیرت قدم رکھنا ۔ پھر جب آزمائش کی چکی گھومنے لگے گی تو کسی کو ملامت نہ کرنا بلکہ صبر کا دامن تھام کر ڈٹ جانا کیوں کہ اس راستے میں تمہیں پھولوں کے ہار نہیں پہنائے جائیں گے بلکہ کانٹوں کی مالا تمہارے گلے کی زینت ہوگی ۔
حسن البناء کے قاہرہ منتقل ہونے کے ایک سال بعد ہی اخوان کی دعوت اور تحریک مصر کے پچاس سے زائد شہروں اور قصبوں میں پھیل گئی تھی ۔ ان شہروں میں اخوان کی شاخیں قائم ہوئیں۔ مسجدیں قائم ہوئیں۔ اخوان کے مراکز قائم ہوئے۔بچوں کی تعلیم کے لئے درس گاہ حرا اور بچیوں کے لئے درس گاہ امہات المومنین بھی قائم ہوئے ۔

اب تک حسن البناء کی دعوت صرف عمومی اصلاح تک محدود تھی مگر 1935 سے انہوں نے مسلسل حکومت کو اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ مسلم ملک کے نظام حکومت، نظام تعلیم اور معاشی نظام میں اسلامی اصلاحات نافذ کرے۔ حکومت مصر اب تک اخوان کی تحریک کو اصلاحی اور مذہبی کوشش سمجھ کر نظر انداز کر رہی تھی لیکن جوں جوں ان کی تحریک بڑھتی گئی، لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہوتے گئے، قاہرہ یونیورسٹی اور جامعہ ازہر کے طلباء کی شمولیت، اس کے علاوہ تاجر، مزدور، ڈاکٹر، انجنیئر، وکیل اور ٹیچر بھی شامل ہوتے گئے یہ دیکھ کر حکمران طبقے کی نیند اڑ گئی اور سیاسی ایوانوں میں ہلچل مچنے لگی۔

الزامات کی بارش

الزامات کی بارش اب زوروں سے برس رہی تھی۔ حسن البناء کو بیرونی ایجینٹ بتایا جا رہا تھا۔ اخوان المسلمون کو پر تشدد، دہشت گرد اور خطرناک گروہ کہا جا رہا تھا۔ انگریز ہائی کمان کے دباؤ پر مصری وزیر اعظم نے اخوان کی ہفت روزہ رسالہ " التعارف" اور" الشعاع " اور ایک ماہنامہ مجلہ " المنار" پر پابندی لگا دی اور اخوان کا پریس بھی ضبط کر لیا گیا تھا۔ ایک طرف اخوان کو بیڑیوں سے جکڑنے کی کوشش چل رہی تھی تو دوسری طرف اخوان نے عوام کو نہایت مستحکم انداز میں منظم کرنا شروع کر دیا۔ مصر کے اندر اخوان کے متحرک کارکنوں کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔ مصر کے اندر اخوان کی شاخوں کی تعداد دو ہزار، سوڈان میں پچاس اور دوسرے عرب ممالک شام، اردن، لبنان اور فلسطین میں بھی اخوان کی شاخیں قائم ہو چکی تھی۔
حسن البناء نے نقراشی پاشا کے دور میں انگریزوں کے خلاف اعلان جہاد کر دیا۔ آپ کی سحر انگیز خطبات نے پورے ملک کے اندر جہاد و آزادی کی آگ بھڑکا دی۔ دوسری طرف برطانیہ اور پس پردہ امریکہ اور روس بھی دنیا کے تمام یہودیوں کو فلسطین میں جمع کرکے اسرائیلی ریاست کے قیام کی سازش میں مصروف تھے۔ ازہر یونیورسٹی کے باہر شاہراہ سے جذبہ جہاد کو ابھارنے والے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ کچھ نوجوان کفن اوڑھے الجہاد سبیلنا کی صدائیں لگا رہے تھے۔حسن البناء عوام کو ہدایات جاری کر رہا تھا۔ عوام کا بس یہی مطالبہ تھا کہ مصری حکومت انگریزی کاسہ کسی کرنے کی بجائے ملت اسلامیہ کے ساتھ کھڑی ہو کر یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کے خلاف اعلان جہاد کرے اور فلسطینیوں کو یہودی غلامی سے بچانے کے لئے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کرے۔ 
حسن البناء مسلسل رضا کاروں کو منظم کرکے جہاد کے لئے بھیج رہے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں اخوانی فلسطین پہنچ چکے تھے۔ اخوانی رضاکاروں کی جوانمردی اور شجاعت دیکھ کر انگریز اور یہودی کے اوسان خطا ہو گئے۔انہوں نے مسلم حکمرانوں کے ذہنوں میں زہر بھرنا شروع کردیا کہ اخوان المسلمون ان کی قیادت کے لئے خطرہ ہیں۔ بالآخر نقراشی پاشا نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر 8دسمبر 1948 کو ہنگامی قانون کے تحت" الاخوان "کو خلاف قانون قرار دے دیا۔
اخوان پر پابندی عائد ہوتے ہی اخوانیوں پر ظلم کا بازار گرم ہو گیا۔ تمام ادارے اور مراکز ضبط کرلئے گئے۔ ہزاروں تعلیم یافتہ افراد کو جیلوں میں بند کردیا گیا۔ اسی دوران نقراشی پاشا کو بھی قتل کر دیا گیا۔ قتل کے بعد نئے سرے سے اخوانی گرفتار کئے گئے۔ اخوان کی پکڑ دھکڑ سے ملک کی جیلیں بھر گئیں۔ اسرائیل کے سرپرست انگریز اور یہودی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ جب تک مصر میں حسن البناء موجود ہیں ان کا یہودی ریاست کے قیام اور استحکام کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اس لئے انھوں نے اخوان کے مرشد عام سے نجات حاصل کرنے کے لئے مصری حکمرانوں کو ہموار کرنا شروع کردیا۔

شہادت 

قتل کے منصوبے بن چکے تھے۔ حسن البناء کو استاد محمد اللیثی کے ذریعے یہ پیغام بھیج دیا گیا تھا کہ استاد ناغی آج شام پانچ بجے آپ سے  شارع عابدین پر واقع مرکز " جمعیت شبان المسلمین " کے دفتر میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ استاد محمد اللیثی سے طئے شدہ وقت کے مطابق آپ اپنے بہنوئی ایڈووکیٹ عبد الکریم منصور کے ہمراہ جمعیت شبان المسلمین کے دفتر پر پہنچ گئے۔ استاد ناغی سے جو گفت و شنید ہوئی وہ کسی قابل ذکر نتیجہ تک نہ پہنچ سکی۔ نماز مغرب پڑھ کر حسن البناء اور ان کے رفیق کو استاد محمد اللیثی ٹیکسی تک چھوڑنے آئے اور پھر دفتر میں ٹیلی فون سننے کے لئے چلے گئے ابھی حسن البناء ٹیکسی میں بیٹھے نہیں تھے کہ اچانک پورے علاقے میں بجلی غائب ہوگئی۔ عین اسی لمحے کچھ نامعلوم افراد نے آپ کو گولیوں سے چھلنی کر دیا اور وہاں سے فرار ہوگئے۔
حسن البناء کو قصر العینی ہسپتال میں داخل کرایا گیا لیکن یہاں بھی شاہی فرمان نازل ہو چکا تھا کہ حسن البناء کے زخموں سے خون بہنے دیا جائے اور ان کو بچانے کی کوئی کوشش نہ کی جائے۔ ادھر حسن البناء موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے۔ زبان پر کلمہ شہادت جاری تھا۔بالاخر ڈاکٹر نے نبض پر ہاتھ رکھا اور پھر حق و صداقت کے سورج کے ڈوبنے کی تصدیق کر دی۔ ( اِنا للہ واِنا اِلیہ راجعون )۔
مسلمانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ جبکہ انگریزوں اور یہودیوں کے ہاں گھی کے چراغ جلائے گئے کہ انھوں نے مسلمانوں کے ایک محسن اور رہنما کو خود انہی کے ہاتھوں ختم کروا دیا۔ لیکن اندر سے خوف زدہ تھے۔ شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ حسن البناء کے محلے کو ایک بٹالین نے گھیرے میں لے لیا۔ آنے جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ شہید کے بوڑھے باپ کو قصر العینی ہسپتال لے گئے۔ یہاں بھی فرعونی فرمان یہی تھا کہ میت کو سیدھے قبرستان لے جایا جائے لیکن بوڑھے باپ کے آگے مجبور ہو کر انھوں نے گھر لے جانے کی اجازت دے دی۔
گھر میں کسی مرد کو داخلے کی اجازت نہ دی گئی۔ باپ نے اپنے بیٹے کو غسل دیا۔ اپنے ہاتھوں سے کفن پہنایا۔ کسی کو نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ گھر میں چند خواتین اور ایک بوڑھا باپ ہی موجود تھا۔ وہ بطل عظیم جس نے لاکھوں دلوں کو ایمانی زندگی سے سرشار کیا تھا، آج اس کی نماز جنازہ اس کا بوڑھا باپ احمد البناء تن تنہا پڑھ رہا تھا اور جنازے کو کندھا دینے والے اس کی بوڑھی ماں اور چند خواتین ۔۔۔۔۔۔۔۔
امام حسن البناء خود تو جاں سے گزر گئے لیکن اپنے لہو سے ایک قندیل روشن کر گئے جس کی روشنی میں وادی نیل کے مسافر ظلمت و تاریکی کا سینہ چیرتے ہوئے منزل کی جانب رواں دواں رہے۔












Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی