میرا قلم میری زباں | محمد طاہر خان ندوی

 میرا قلم میری زباں 

 طاہر خان ندوی



جب سے بھارتی نژاد رشی سونک برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن کو شکست دے کر برطانیہ کے وزیر اعظم بنے ہیں سوشل میڈیا میں ہندو وادی کی جئے جئے کار ہو رہی ہے۔ مبارک بادی کے سلسلے چل پڑے ہیں۔ اور ایسی ایسی باتیں کہی جا رہی ہیں کہ مانو پورا برطانیہ فتح کرلیا گیا ہے۔ اور خوشی اس بات پر منائی جا رہی ہے کہ رشی سونک ایک ہندو ہیں اور ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں یہ حقیقت بھی ہے لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے رشی سونک کے آباؤ اجداد جس وقت ہندوستان سے ساؤتھ افریقہ ہجرت کر رہے تھے اس وقت ملک تقسیم نہیں ہوا تھا اور تقسیم کے بعد رشی سونک کا علاقہ ( گوجرانولہ ) اب پاکستان میں ہے اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو رشی سونک ایک پاکستانی نژاد ہوئے خیر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جناب ہندوستانی ہیں یا پاکستانی خوشی اس بات کی ہے کہ جس ملک نے دو سو سال تک ملک ہندوستان کو غلام بنائے رکھا اب اسی ملک کی باگ ڈور ایک ہندوستانی کے ہاتھوں میں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ رشی سونک برطانیہ کی معیشت کیسے بہتر بنائیں گے۔ پارٹی کو کیسے متحد کریں گے۔ اور ملک کی حالت کیسے بہتر بنائیں گے رشی سونک کو بہت سے چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ایک بہتر طریقے سے ملک کے انتظام و انصرام کو دیکھ سکتے ہیں اور چلا بھی سکتے ہیں ۔

سوشل میڈیا پر ایک دوسری بحث یہ چل پڑی ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی 75 فیصدی آبادی عیسائیت پر مبنی ہے جب اقلیت میں رہتے ہوئے رشی سونک برطانیہ کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو ہندوستان کی اقلیت ( مسلمان ) میں سے کوئی اس ملک کا وزیر اعظم کیوں نہیں بن سکتا۔ جب یہی سوال عارفہ خانم شیروانی اور ان جیسے صحافیوں کی جانب سے کیا گیا تو مختلف جوابات کا نظارہ دیکھنے کو ملا کسی کے کہا جب اس ملک کا مسلمان گھر واپسی کر لے یا ہندؤں کو کافر کہنا چھوڑ دیں یا قرآن سے لفظ جہاد کو نکال دیں یا اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب بالخصوص ہندو مذہب کو غلط کہنا چھوڑ دیں تو مسلمان اس ملک کا وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ یہ ساری باتیں وہی ہیں جو آر ایس ایس کی جانب کہی جاتی ہیں کہ مسلمان اپنے دین و مذہب اور ایمان و عقیدہ سے دستبردار ہو جائے تو ہمارے درمیان سارے اختلافات ختم ہو جائیں گے تو ان کی یاد دہانی کے لئے بس یہ کہنا کافی ہے کہ ایک مسلمان کبھی بھی اپنے دین و ایمان ، عقیدہ و اسلام اور تحریف قرآن پر راضی نہیں ہو سکتا اگر کوئی شریعت کی نگاہ میں کافر ہے تو اسے کافر ہی کہا جائے گا ۔ اسلام کے علاوہ سارے مذاہب باطل ہیں تو اسے باطل ہی کہا جائے گا اب رہی بات حکومت و اقتدار کی تو ایک مومن کا یہ ایمان و عقیدہ ہے کہ یہ ملک اہل ایمان کی بدولت چل رہا ہے اور جس وقت مسلمان اپنے ایمان و عمل پر پختہ ہو جائیں گے تو اس ملک کی قسمت پر مسلمانوں کا نام لکھ دیا جائے گا ۔



 


3 تبصرے

  1. نہ گھبراؤ مسلمانوں خدا کی شان باقی ہے۔۔ابھی اسلام زندہ ہے ابھی قرآن باقی ہے۔۔۔یہ کافر کیا سمجھتے ہیں جو اپنے دل میں ہنسنے ہیں۔۔۔ابھی تو کربلا کا آخری میدان باقی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. وانتم الاعلون ان كنتم مؤمنين.....اور تم هي سر بلند رہو گے اگر تم مومن رہو گے

    جواب دیںحذف کریں
  3. ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے۔۔پاؤ شیروں کے بھی میدان سے اکھڑ جاتے تھے

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی