اردو کیوں ناگزیر ہے ؟
محمد طاہر ندوی
سب ایڈیٹر ہفت روزہ ملی بصیرت ممبئی
اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ مکمل ایک تہذیب و ثقافت کا نام ہے، ایسی تہذیب جس میں بڑوں کا ادب و احترام، چھوٹوں سے الفت و شفقت، اپنوں سے پیارو محبت کا عنصر نمایاں طور پر موجزن ہوتا ہے۔
اردو
انسان کو مہذب، عادات و اطوار کو مثقف، آنکھوں میں حیا، زبان میں شائستگی، گفتار میں حلاوت، انداز میں چاشنی، کردار میں نفاست، اخلاق میں عمدگی، قلب و جگر میں تازگی، دماغ کو معطر، اور جسم میں حرارت پیدا کردیتی ہے ۔
کسی قوم کی قومیت، فلاح و بہبودیت، اور ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں اس کی زبان، لباس اور تاریخ کو رگِ جاں اور شہ رگ کے مانند سمجھا گیا ہے۔
جنہوں نے اپنی زبان کی اہمیت و افادیت کو منظورِ نظر رکھا، اور اسکی حفاظت و پاسبانی کی یہ دنیا شاہد ہے اور تاریخ اپنی داستان سنانے پر بضد ہے کہ ایسی اقوامِ عالم نے دنیا پر حکمرانی کی اور اپنی فتح و کامرانی کے عَلَم نصب کر دئے ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اس دنیائے بے رنگ و بو میں دو ایسی قومیں ( یہودی و برہمن ) جو سیاستی و ریاستی اہمیت کھو چکی تھیں ، در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھیں ، مگر انہوں نے اپنی قومی اور قدیم زبانوں یعنی ہندی اور عبرانی کو صرف اپنے گھروں میں نہیں بلکہ اپنی زندگی میں زندہ و تابندہ رکھا اور اپنی نسلوں کو سکھایا اور انکی اولاد نے اپنی نسلوں کو سکھایا اور یہ سلسلہ درازئ عمر میں پہنچ کر اپنی کامیابی و کامرانی کے جھنڈے نصب کردئے اور دنیا ان کے آگے سر نگوں ہوگئی ۔
یہ ایک المیہ ہے جو سانحہ کی شکل ہمارے سامنے آ رہا ہے کہ معماران قوم و ملت اردو کے ابجد سے بھی ناواقف و نا بلد ہیں۔ بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ آج ہمارے معاشرے میں اردو پڑھنا تو درکنار سوچنا بھی قعرِ مذلت کا سامان بن چکا ہے۔
یاد رکھیں !
اردو ایک ایسی زبان ہے جس کا تعلق ہمارے جسم و جاں سے ہے ، معاشرے سے ہے، تہذیب و تمدن اور ثقافت سے ہے۔
اگر ہم نے اردو زبان کی تعلیم و تعلم، قرأت و کتابت، ترویج و اشاعت کی فکر نہ کی اور مسلسل لاپروائی سے کام لیتے رہے تو ہماری نسلیں بے زبان پیدا ہوں گی اور لسانی غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی۔۔۔۔
سوفیصد صحیح فرمایا آپ نے محترم
جواب دیںحذف کریںحقائق پر مبنی تحریر ہے
بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں