تعزیت بر وفات جناب راحت اندوری مرحوم* (11,اگست 2020)

 *یومیہ ڈائری میں سے کچھ___ تعزیت بر وفات جناب راحت اندوری مرحوم* (11,اگست 2020) 

از : انتخاب عالم پاشا ندوی 



آج کا دن یوں اہمیت کا حامل رہا  کہ آج دو ایسے شخص راہئ ملک عدم ہوئے جن میں سے ایک نیک نامی کے بام عروج پر پہنچا تو دوسرا بدنامی میں مشہورِ زمانہ ہوا، نیک نامی کا تمغہ عالمی شہرت یافتہ شاعر عزت مآب جناب راحت اندوری مرحوم نے اپنی انقلابی شاعری کے ذریعے حاصل کیا اور بدنامی کا دھبہ سلمان رشدی ملعون نے نبی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کر کے اپنے دامن پر لگایا، راحت اندوری کے سانحۂ ارتحال پر راقم کو دلی صدمہ پہنچا کہ آج ملک کا شان قلندری رکھنے والا عظیم شاعر چلا گیا آپ اپنی شاعری کے ذریعے حکومت پر جرأت کے ساتھ تبصرہ کرنے اور اسے للکارنے کا حوصلہ رکھتے تھے، مرحوم کا مشہور زمانہ شعر کہ 

جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے 

کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے

  ہر موقع پر زبان زد خواص و عوام ہوتا ہے جو کہ تادیر لوگوں کے ذہنوں میں ان کی یاد تازہ رکھے گا.

 آہ ! زمانہ کا وہ جری، باہمت شاعر جو علی الاعلان ظالموں کو للکار کر کہا کرتا تھا " صرف اک شعر اڑا دےگا پرخچے تیرے،  تو سمجھتا ہے کہ شاعر ہے کر کیا لے گا " آج اپنا پیغام بعد والوں کے حوالے کر کے دنیائے باقی کو سدھار گیا، مرحوم کے بیشتر اشعار ایسے ہیں جو لوگوں اور زمانے کے حسب حال ہیں اور بروقت نوک زبان ہوتے ہیں، مجھے اس وقت فیض صاحب کے وہ مصرع یاد آتے ہیں کہ " ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں ؛ تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے"  یقینا ان کے جانے سے شاعری اور ادبی دنیا میں جو خلا پیدا ہوئی ہے اس کا پُر ہونا تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ مرحوم عصر حاضر میں قدیم دور کا عظیم سرمایہ تھے ان کی شاعری ماضی کا آئینہ اور حال کا ترجمان ہوتی تھی، ان کو سن کر قدیم اساطین شعراء کی یاد تازہ ہوجاتی، راقم کو دو مرتبہ ان کو براہ راست سننے کا موقع ملا  کیا ہی خوب ان کا کلام ہوتا! اس پر مزید ان کے پڑھنے کا مخصوص نرالا انداز، خوبصورت لب و لہجہ اور آواز کی گھن گرج کے ساتھ انکی پختہ شاعری یہ سب اب ماضی کی خوبصورت یادوں کا حصہ بن جائیں گی۔

  یقیناً موت ایک اٹل حقیقت ہے کہ وہ نادان و دانا، محتاج و غنی اور مشہور و گمنام کسی کو خاطر میں نہیں لاتی، وقت موعود آنے پر ہر ایک کو اس کا کڑوا جام پینا پڑتا ہے، بس کوئی گمنام مرتا ہے اور کسی کو زمانہ یاد رکھتا ہے۔

اور سچ ہے کہ 

 موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے

 یقیناً مرحوم کی شخصیت ایسی پروقار اور محبوب تھی کہ ان کو عرصہ تک زمانہ یاد کرے گا اور ان کے اشعار کو نسلیں یاد رکھیں گی، آج مرحوم اپنے ہی شعر کو حقیقت میں بدل گیے کہ 

دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے

 اے موت تونے مجھکو زمیندار کر دیا

 اور اپنے پیچھے ایک عالَم کو سوگوار کر گیا، اللہ مرحوم کو غریق رحمت کرے اور ابدی سکون نصیب کرے۔


 آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے 

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے


از قلم...  انتخاب پاشا ندوی 

ابوبکر مسجد , لائن بازار پورنیہ

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی