محمد طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ
ہائی کورٹ ہو یا سپریم کورٹ ، صحافت ہو یا سماجی تنظیمیں ، نیوز چینل ہو یا سوشل ایکٹیوٹیز ، پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ؛ اب سرکار کی جی حضوری کئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ سچ بولنا تو گویا جرم گردانا جا رہا ہے اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ سنانا ، گویا ملک سے غداری کے مترادف مانا جا رہا ہے۔ پہلے سیکیولرازم کا مطلب کچھ اور تھا ؛ آزادی اظہار رائے ، ذات و مذہب میں امتیاز کئے بغیر ہر ایک کے ساتھ انصاف اور برابری کا معاملہ رکھنا جیسے اصول پائے جاتے تھے جہاں اس بات کی اجازت ہوتی تھی کہ آپ بغیر کسی ڈر اور خوف کے حکومت کا محاسبہ کر سکیں ، غلط اقدامات کو غلط اور صحیح کو صحیح کہہ سکیں لیکن اب سیکیولرازم کا مطلب اور ڈیفینیشن بدل چکا ہے۔ اب سرکار کی پالیسیوں، مذاق و مزاج اور سسٹم کے خلاف لب کشائی کرنا اور ہندوتو فلسفہ کے خلاف لکھنا ، بولنا یا کسی بھی سرگرمی کا حصہ بننا اینٹی نیشنل سمجھا جاتا ہے۔
بھکتوں کی ٹولی
اب دیکھئے کہ سپریم کورٹ نے گستاخ رسول نپور شرما کے خلاف ایک تبصرہ کیا کر دیا جب کہ وہ تبصرہ مبنی بر حق تھا لیکن بھکتوں کی ٹولی برا مان گئی اور ہاتھ دھو کر سپریم کورٹ اور اس کے ججوں کے پیچھے پڑ گئی ہے ۔ بقول پرویز انجم صاحب کے
" حال دل ہم نے سنایا تو برا مان گئے " جب کہ سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ" آج جو ملک میں آگ لگی ہے وہ اس عورت کی وجہ سے لگی ہے " کوئی غلط بیانی یا غلط تبصرہ نہیں تھا لیکن یہ تبصرہ بھکتوں کی ٹولی جس میں سیاہ و سفید کے مالک 15 رٹائرڈ ججز ، 77 نوکر شاہی اور 25 آرمی رٹائرڈ آفیسرز شامل ہیں انہیں پسند نہیں آئی وہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو آئین ہند کے بجائے " " منوسمرتی " کا پابند ہونا چاہئے جس میں صرف ہندوتو اور ہندؤں کی بالا دستی کی بات کہی گئی ہے۔
سپریم کورٹ
اب آپ گستاخ رسول نپور شرما کو ہی دیکھ لیجئے کہ اس کے خلاف ملک کی کئی ریاستوں میں ایف آئی آر درج کرائی گئی ، اس کی غلط بیانی اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی وجہ سے کئی جگہ فساد ہوئے ، جانی و مالی نقصانات ہوئے ، گرفتاریاں ہوئیں ، بے قصور مسلم نوجوانوں کو زدو کوب کیا گیا ، ان پر غیر قانونی کارروائی ہوئی ، امراوتی اور راجستھان کے ادے پور میں دو لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ، اتنا کچھ ہونے کے بعد اگر سپریم کورٹ نپور شرما کے بارے یہ کہتی ہے کہ" آپ کو پورے ملک سے معافی مانگنی چاہئے" تو اس تبصرے پر بھگوا دھاری ٹولہ کا یہ کہنا کہ " سپریم کورٹ نے لکشمن ریکھا پار کر دیا ہے " سمجھ سے بالا تر ہے۔ حالانکہ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے بابری مسجد کی حیثیت کو قبول کرنے کے باوجود صرف ہندؤں کے مذہبی جذبات و احساسات کو مد نظر رکھتے ہوئے رام مندر کا فیصلہ سنایا تھا اس وقت یہ کورٹ ان کی نظر میں کسی مندر سے کم نہیں تھا لیکن جیسے ہی ان کے مزاج و مذاق کے خلاف سپریم کورٹ نے کوئی تبصرہ دیا تو بھکتوں کی پوری ٹولی سپریم کورٹ اور اس کے ججوں کو ٹرول کرنا شروع کر دیتی ہے۔ بقول پرویز انجم صاحب کے
ناز پہ ناز اٹھایا تو بڑے اچھے تھے
نیند سے ان کو جگایا تو برا مان گئے
جس کے ہر لفظ میں ہر بند میں نام ان کا تھا
ہم نے وہ گیت سنایا تو برا مان گئے
سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ " ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس کی واحد ذمہ دار ہیں " کوئی غلط تبصرہ نہیں تھا بلکہ یہ وہ سچائی ہے جس کو بر سر اقتدار پارٹی اور اس کی پولیس انتظامیہ چھپاتی آ رہی ہے۔ جبکہ نپور شرما کو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی وجہ سے گرفتار کیا جانا چاہئے تھا ٹھیک اسی طرح جیسا کہ آزاد صحافی محمد زبیر کو مذہبی جذبات مجروح کرنے کے محض الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ محمد زبیر کے معاملے میں پولیس اور انتظامیہ کا مکروہ چہرہ دیکھئے کہ ایک گمنام ٹویٹر ہینڈل جس کے کل فالورز بھی محض تین اور اس ہینڈل کے ذریعے پوسٹ بھی صرف ایک لیکن صرف اس کی شکایت پر محمد زبیر کو اس کے چار سال پرانا ٹویٹ کی وجہ سے دہلی پولیس اسے گرفتار کر لیتی ہے اور جس نے ٹائمس ناؤ کے ٹی وی چینل پر ناموس رسالت کے خلاف اپنی گندی زبان سے زہر اگلا ، جس کے خلاف پورے ملک میں مقدمات درج کئے گئے؛ حکومت اور حکومت کا بھگوا دھاری سسٹم اس عورت کی پشت پناہی اور اسے تحفظ دے رہا ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو جیل کی ہوا۔ اور اگر اس ملک کا سپریم کورٹ اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ آپ اس سب کی واحد ذمہ دار ہیں تو یہ بات نوکر شاہوں کو اور بھگوا دھاری ٹولی کو اچھی نہیں لگتی ، بھکتوں کی پوری ٹولی سوشل میڈیا میں اور زمینی سطح پر بھی سپریم کورٹ اور اس کے ججوں کے خلاف زہر اگلنے لگتی ہے۔
عیب ہر شخص میں جو ڈھونڈ رہے تھے انجم
آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے
موبائل نمبر 7667039936
ایک تبصرہ شائع کریں