قوم مسلم کا خدا حافظ
محمد طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ
کیوں کر اللہ ہماری مدد کرے ؟ کیوں کر اللہ ہمیں غلبہ نصیب کرے ؟ ایسی کون سے اعمال اور کون سی خوبیاں ہیں جن کی بنا پر ہم اللہ سے رحم و کرم اور عافیت کی امید رکھیں ؟ اگر غور کریں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کی بنا پر اللہ کا وہ وعدہ جو مومنوں کے ساتھ ہے ، محنت و مشقت کرنے والوں کے ساتھ ہے ، مجاہدے و قربانیاں دینے والوں کے ساتھ ہے یعنی فتح و نصرت اور کامیابی و کامرانی کا ہمیں کیوں کر ملے ؟ نہ ہمارے پاس ایمان کی حقیقت ہے نہ اعمال صالحہ کا ذخیرہ ، نہ مجاہدے نہ قربانیاں ہیں نہ اخلاق و کردار کا اعلیٰ نمونہ ، نہ عادات و اطوار کا قرینہ ہے نہ وقت کا صحیح استعمال ، نہ اپنے مستقبل کی فکر ہے نہ تعلیم و تربیت ، نہ ذریعہ معاش کی جستجو ہے نہ اس ملک میں اپنے وجود کے بقا کی فکر اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل ہے ہمارے پاس تو کچھ بھی تو نہیں ہے ۔
آج مسلم نوجوانوں کی حالت دیکھ کر دل یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ " ویا اشباہ الرجال ولا رجال " اور دل کیوں نہ کہے جبکہ معمار قوم مسمار قوم کا سبب بن رہے ہیں ، جو فخر وطن تھے وہ ذلت قوم کا سبب بن رہے ہیں ، جو عزت و سر بلندی کا مینار تھے وہ ذلت و رسوائی کی خاک چھان رہے ہیں ، جن سے تعمیر نو کی امیدیں وابستہ تھیں وہ تخریب کاری میں ملوث ہیں ، جن کے مضبوط کندھوں پر قوم و ملت کا بار گراں رکھنا تھا وہ پہلے ہی فالج زدہ کا شکار ہیں ، جن کے مضبوط و مستحکم بازوؤں کو مظلوموں کا سہارا بننا تھا وہ پہلے ہی موبائل اور آئی فون کی زد میں مفلوج ہو چکے ہیں ۔
آج جہاں دیکھئے نوجوان نسل بڑی بے دردی سے اپنے اوقات کو ضائع کرتے نظر آئیں گے ، سڑکوں پر ، دکانوں پر ، گلی کوچے اور محلے کی نکڑوں پر ، نہ دین سے کوئی واسطہ ہے نہ دنیا سے کوئی رابطہ ، نہ مسجد و محراب سے کوئی تعلق ہے نہ قرآن و سنت سے کوئی رشتہ ، نہ اپنوں کی کوئی فکر ہے نہ غیروں کی کوئی خبر ، نہ دوستوں کی کوئی تمیز ہے اور نہ ہی دشمنوں کی کوئی پہچان ۔
جب قوم کی ایسی حالت ہو تو بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسی قوم کا مٹ جانا ہی بہتر ہے بلکہ مٹنا اور ہلاک ہو جانا ہی مقدر ہوتا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جب تک نوجوان نسل پر محنت نہ ہو دین و دنیا دونوں اعتبار سے اس وقت تک قوم مسلم کا بس خدا حافظ ۔
ایک تبصرہ شائع کریں