دیارِ غیر سے دیارِ خویش تک( سفرنامہ)

 دیارِ غیر سے دیارِ خویش تک( سفر نامہ )

⁦✍️⁩⁦✍️⁩طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر


وہ عید کا دن تھا جب لوگ صبح سویرے بیدار ہوکر تیاریوں میں مصروف تھے ، لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر طرف خاموشی طاری تھی ، عجیب کشمکش تھی ، لوگ خفیہ طور پر اور غیروں کی نظروں سے بچتے ہوئے عید الفطر کی نماز ادا کرتے اور خاموشی کی چادر اوڑھ کر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ۔

ہم نے بھی علی الصبح دوستوں کے ہمراہ چپکے چپکے عید کی نماز ادا کی اور اپنے کمروں میں خود کو مقید کرلیا ۔ یہ پہلی عید تھی جو گھر سے دور ، عزیزو اقارب سے دور ، دوست و احباب سے دور گزری اور تعجب تو یہ کہ عید کی نماز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی چھپ چھپا کر اور چپکے چپکے !!
خیر ہنسی تو خوب آئی اور مزید بالائے ستم ۔۔۔۔۔۔۔۔ آنسو بھی خوب بہہ رہے تھے اور زندگی خوشی اور غمی دونوں کو یکجا کرکے مشاہدہ کرا رہی تھی ۔

دوپہر تقریباً 11:30 کا وقت تھا جب موبائل کی گھنٹی زور زور سے بجنے لگی " شکراً یا ربی شکراً ھدیت قلبی شکراً " اسکرین پر نظر پڑی تو دیکھا ابا حضور تھے ؛
" 2جون جلیانوالہ باغ سے آپ کی بکنگ ہو گئی ہے اب جلد گھر آنے کی تیاری شروع کردیجئے "
ابا حضور نے فون پر  بطورِ " عیدی "  یہ مژدہ مجھے سنا دیا اور میں مارے خوشی کے جھومنے لگا اور دل ہی دل میں یہ شعر پڑھنے لگا

برسوں تیرے انتظار میں بیٹھے رہے صنم
شوقِ دیارِ خویش بھی کتنا عجیب ہے
( طاہر ندوی )

تیاریاں زوروں پر تھی ، دن گھنٹوں میں اور گھنٹے منٹوں میں بدل رہے تھے ، رفتہ رفتہ کم و بیش ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دن ( جس کا بے صبری سے انتظار تھا ) اپنے آب و تاب کے ساتھ آن پڑا ۔

مشکل یہ تھی کہ ٹرین کانپور سے تھی اور یہ جسدِ خاکی ، نوابوں کے شہر ، شعراء کا محبوب دیار ، وطنِ عزیز کا قلب و جگر ، اردو زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کا مرکز " لکھنؤ " میں مقید  تھا اور لکھنؤ سے کانپور کے لئے صرف ایک ٹرین تھی وہ بھی صبح سویرے چھ بجے ۔

والدین کی محبت ، عزیزوں سے ملاقاتیں اور دوستوں سے ملنے کی خوشی میں رات آنکھوں میں بسر ہو گئی اور وقت اپنی رفتار چلتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے صبح کی اذان ہو گئی ، نماز پڑھ کر اپنے قیام گاہ سے نکلا اور مادرِ علمی ، محبوب و مطلوب ادارہ " دارالعلوم ندوۃالعلماء " کو با دلِ نخواستہ "الوداع  الوداع اے مادرِ علمی الوداع " کہا 

شہر ویراں 

باہر نکلا تو عجیب و غریب سماں تھا ، سنسان سڑکیں ، بند دکانیں ، ویران راستے ، ہر طرف سنّاٹا ہی سنّاٹا ، جو شہر انسانوں کی آمد و رفت ، گاڑیوں کی کثرت ، دکانوں اور بازاروں سے  کھچا کھچ بھرا رہتا تھا ، آج وہ سنسان جزیروں ، ویران کھنڈروں اور شہر خموشاں کی عکاسی کر رہا تھا ، دور دور تک میری بے لگام نظریں راستوں کو تک رہی تھیں اور راستے مجھے تک رہے تھے اور کہہ رہے تھے " یہ کون احمق اور بے وقوف انسان ہے جو شہرِ خموشاں سے راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے ؟؟"

میں اپنے دوست کے ہمراہ باہر ٹیکسی کا انتظار کر رہا تھا اور وقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ سے نکلتا جا رہا تھا ، بر وقت اسٹیشن پہنچنا تھا ، دور دور تک ٹیکسی کا نام و نشان تک نہیں تھا ،  میں حیران و پریشان کبھی دائیں جانب نظریں دوڑاتا کبھی بائیں جانب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہر مرتبہ میری نظریں تھک ہار کر اور نامراد ہو کر لوٹ آتیں ۔

اللہ بھلا کرے میرے عزیز دوست کا جس نے بروقت ایک
" موٹر سائیکل " کا بندوست کیا اور ویران سڑکوں پر بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑا کر مجھے " چار باغ اسٹیشن " 
پہنچا دیا ۔

 چار باغ اسٹیشن کا سناٹا 



یہ وہی " چار باغ اسٹیشن " ہے جس کی بنیاد 21 مارچ 1914 میں رکھی گئی اور 1923 میں اپنے تکمیل کو پہنچا ، ہندوستان کے خوبصورت اور پرکشش اسٹیشنوں میں سے ایک ، جس کو" اودھی "اور" مغلی " طرز پر تعمیر کیا گیا تھا ۔
اسٹیشن پہنچا تو عجیب ماحول تھا ، ہر طرف خاکی وردی والے ایسے گھوم پھر رہے تھے جیسے صبح سویرے چہل قدمی کے لئے نکلے ہوں اور عجیب بات تو یہ تھی کہ جو اسٹیشن لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے جانا اور پہچانا جاتا تھا آج ویرانیوں نے اپنے جھنڈے نصب کردئیے تھے اور لوگوں کی آمد و رفت پر قدغن لگا دیا گیا تھا ۔

ایک خاکی وردی والے سے ٹرین کی بابت دریافت کیا اور اس نے" سواری کے انتظار میں کھڑی ایک ٹرین " کی طرف اشارہ  کیا اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔ پلک جھپکتے ہی ٹرین میں سوار ہو گیا اور ابا حضور کو یہ خبر دے دی کہ " جو ٹرین ہاتھ سے نکلنے والی تھی اب وہ میرے قبضۂ قدرت میں آ چکی ہے اور امی جان کو بتا دیں کہ پریشان نہ ہوں جیسے ہی مجھے وقت میسر ہوگا میں کال کرلوں گا "

ادھر ٹرین مسلسل اپنی رفتار چل رہی تھی ، گزرتے اسٹیشنوں پر موجود لوگوں کو نظر انداز کر تے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی ، ٹرین میں موجود ہر کوئی اپنے چہرے پر ماسک لگائے ، خوف و ہراس کی چادر اوڑھے ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اسی اثناء #_سر_سائبان_صاحب_ کا میسیج موصول ہوا ؛
علیک سلیک کے بعد #_سر_سائبان_صاحب_ نے کہا کہ " میری ڈائری کی مکمل اقساط کی لنک مجھے ارسال کردیں " اور میں نے ایک مطیع و فرمانبردار غلام کی طرح تکمیلِ حکم کی خاطر ارسال کردیای اس کے بعد میں اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا ۔
تقریباً صبح ساڑھے سات بجے میں "کانپور سینٹرل ریلوے اسٹیشن " پہنچ گیا تھا ۔ کانپور ریلوے اسٹیشن  ہندوستان کے پانچ مرکزی اسٹیشنوں میں سے ایک ہے جس کو 1930 میں بنایا گیا تھا جو نقشے اور ڈیزائننگ کے اعتبار سے اپنی مثال آپ رکھتا ہے ۔


شہر کانپور میں آمد 


شہر کانپور بے شمار محاسن و فضائل کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ، جسے نامور شخصیات اور شعراء کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے ، یہ وہی شہر ہے جہاں" تحریک ندوۃالعلماء " کی بنیاد رکھی گئی ، جہاں سید محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ نے  مدرسہ فیض عام کانپور کے جلسۂ دستار بندی کے موقعے پر 1310 ھ بمطابق 1892 ء میں " ندوۃالعلماء " کا تخیل سب سے پہلے پیش کیا اور پھر 1894 ء کو اسی مدرسہ میں " ندوۃالعلماء " کا پہلا اجلاسِ عام منعقد ہوا 



جب اسٹیشن سے باہر نکلا تو حکومت کے کارندے ، چہرے پر ماسک ، ہاتھ میں دستانے اور جسم پر حفاظتی لباس زیب تن کئے ہر مسافر کو روک روک کر ان کی خیریت دریافت کرتے ، جسم کی حرارت کو دیکھتے پھر رخصتی کی اجازت دیتے ۔

میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ، مجھے پانچ فٹ کی دوری پر کھڑا کرکے حال احوال دریافت کیا پھر ایک مشین کے ذریعے جسم کی حرارت کو دیکھا گیا ، وہ جسم کی حرارت کو دیکھ رہے تھے جبکہ میں ان کی فکر و نظر ، عقل و خرد اور ذہن و دماغ کی حرارت اور سطحیت کو دیکھ رہا تھا ۔

میرے ساتھ کچھ عجیب سا معاملہ کیا گیا کیونکہ میں اسپیشل تھا ، سر پر ٹوپی ، چہرے پر داڑھی ، جسم پر اسلامی لباس جو میری شناخت بتا رہے تھے کہ ( میں ایک مسلم ہوں اور اسلامی قلعے سے میرا ربط و تعلق ہے ) میرے ساتھ ناروا سلوک کرنے کے لئے اتنی جان پہچان کافی تھی ۔

حکومتی کارندوں کی تنگ نظری ، شدت پسندی اور سطحی سوچ و فکر کے حصار سے بخیر و عافیت باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا ، باہر نکل کر قریب کی ایک مسجد کا قصد کیا تاکہ راحت و سکون میسر ہو جائے اور وقت گزاری کے لئے ایک محفوظ مقام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ کیا !!!
مسجد کے صدر دروازے پر بڑا سا سائن بورڈ لگا تھا " نمازِ پنجگانہ اپنے گھروں میں ادا کریں مسجد آنے کی زحمت نہ فرمائیں" میری بے چارگی ، بے بسی اور بے کسی کو دیکھ میری قسمت مجھے " ہائے۔۔۔۔۔ ہائے " کہہ رہی تھی ۔
اور میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی اِس کے در ، کبھی اُس کے در اور کبھی در  بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھا ۔

دوپہر تقریباً دو بجے جب گرمی زوروں پر تھی ، تیز تند ہوائیں چل رہی تھیں، سورج کی شعاعیں چہرے کو جھلسا رہی تھی اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مقفل دکان کے سائے میں بیٹھ کر اسباق حل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک" بزمِ سائبان " پر نظر پڑی تو حیرت و استعجاب کی انتہا نہ رہی یہ دیکھ کر کہ " میری ڈائری " کو #_سر_سائبان_صاحب_مع_جملہ_منتظمینِ_بزمِ_سائبان کی طرف سے خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے ۔

یہ خراجِ تحسین زخم کا مرہم ، زہر کا تریاق ، موسمِ گرما میں موسمِ سرما کا احساس اور دن بھر کی تھکاوٹ کے لئے باعثِ راحت و سکون ثابت ہوا ۔
بات چل نکلی تو سوچا آپ سب کا ایک بار پھر سے شکر ادا کرتا چلوں تاکہ" لإن شكرتم لأ زيدنّكم  " کا حق ادا ہو جائے ۔

سہہ پہر کا وقت تھا جب ایک دوست کی کال آئی اور کہا کہ " اسٹیشن کے خارجی پلیٹ فارم پر تشریف لے جائیں  وہاں ٹھہرنے کا بندوست ہے "
میں جھٹ پٹ اپنا رختِ سفر باندھ کر نکل پڑا ، وہاں پہنچ کر کچھ دیر آرام کیا اس کے بعد قریب کی ایک مسجد میں اجازت لے کر ظہر ، عصر اور مغرب کی نماز ادا کی ۔
عشاء کی نماز پڑھ کر اندرونِ اسٹیشن داخل ہوا ، مسافروں کی لمبی لمبی قطاریں دور دور تک لگی ہوئی تھیں ، مطلب پرستی اور خود غرضی کی اس دنیا میں جہاں لوگ اپنے پیاروں اور رشتہ داروں کے احوال تک دریافت نہیں کرتے وہاں ہم جیسے غریب الوطنی  سے خیریت معلوم کی جاتی ، درجۂ حرارت کو دیکھا جاتا اور ہر کسی کو سینیٹائزڈ  کیا جاتا ۔

مطلوبہ پلیٹ فارم پر پہنچ کر عشاء کی نماز ادا کی پھر گھر فون کیا اور ابا حضور کو احوال و واقعات سے باخبر کر دیا پھر ٹرین کے انتظار میں بیٹھ کر اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا ۔
ٹرین وقتِ مقررہ سے پہلے جلوہ افروز ہو چکی تھی ، یہ بھی ہندوستان کے معجزات میں سے ایک بہت بڑا معجزہ تھا ورنہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کی ٹرینیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی قبل از وقت ؟؟؟
ٹرین فُل ایئر کنڈیشنڈ تھی ، اپنی سیٹ پر بیٹھ کر جلد از جلد سامان کو ایڈ جسٹ کیا اور فرمانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق " إن لربك عليك حقاً ، ولنفسك عليك حقاً ، ولأهلك عليك حقاً ، فأعط كل ذي حقٍ حقه "
( رواہ البخاری )
" بے شک تمہارے رب کا تم پر حق ہے ، تمہاری جان کا تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے تو اہلِ حقوق کے حقوق ادا کرو " کے مطابق فرشِ راہ ہو گیا ۔


دیار خویش 

صبح آنکھ کھلی تو پتہ چلا منزلِ مقصود قریب ہے ، جلد ہی رختِ سفر کو سمیٹ کر رکھا اور واش روم سے فریش ہو کر مطلوبہ اسٹیشن ( ٹاٹا نگر ) کا انتظار کرنے لگا ۔
جلد ہی وہ منزل بھی آگئی ،  جس کی خاطر بے شمار تکلیفوں اور پریشانیوں کو بشاشت قلبی ، خوش مزاجی اور خوش خلقی سے برداشت کیا تھا ۔
   ٹرین سے اتر کر پھر اسی مرحلے سے دوچار ہونا پڑا اور اس مرتبہ بھی " شاہِ بخت " میرے ہمراہ تھے ، دیارِ خویش میں پہنچا تو اپنوں کی ستم ظریفی اور معصوم جان پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہو گیا اور مسلسل پندرہ دنوں کے لئے مجھے " قرنطینہ کی قیدِ با مشقت " کی سزا سنا دی گئی ۔
اللہ نے اس سزا کو بہترین بدلہ سے بدل دیا اور قرنطینہ کی مدت کو تحریر و کتابت اور مطالعہ میں عرق ریزی کرنے کی توفیق عطا فرما دی ۔ ( چوک چوک شکُر )

17 جون بروز بدھ کی صبح ناشتہ سے فارغ ہوکر مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانک یہ خبر موصول ہوئی کہ " آج دوپہر آپ کو اس جیل سے رہا کیا جارہا ہے اپنے گھر والوں کو اطلاع کر دیں " خبر سنتے ہی لمبی سانس بھری اور ابا حضور کو یہ مژدہ سنایا ۔

ظہر کی نماز پڑھ کر مزید شکرانے کی نماز ادا کی ، ادھر میرے چھوٹے بھائی موٹر سائیکل لیکر براجمان ہو گئے تھے  ، جھٹ پٹ چہرے پر ماسک لگایا اور سامان لے کر بائیک پر سوار ہو گیا اور کچھ ہی دیر بعد میں اپنے گھر پہنچ چکا تھا ، گھر پہنچتے ہی ایسا ماحول بندھ گیا جیسے " دیش کے چوکیدار ، جملوں کے ماسٹر مائنڈ ، ایکٹنگ کے سرتاج ، بیان بازی کے ماہر ، جھوٹ اور فریب کے سوداگر ، پیارے پیارے وزیراعظمِ ہندوستان نے پندرہ پندرہ لاکھ والا جملہ کو سچ کر دکھایا ہو اور ملک میں جاری لاک ڈاؤن کو ختم کردیا ہو " ۔

8 تبصرے

  1. یہ کون احمق اور بے وقوف انسان ہے جو شہرِ خموشاں سے راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے ؟؟ 😃😃

    جواب دیںحذف کریں
  2. ابا حضور کو یہ خبر دے دی کہ " جو ٹرین ہاتھ سے نکلنے والی تھی اب وہ میرے قبضۂ قدرت میں آ چکی ہے 😃

    جواب دیںحذف کریں
  3. ہر مسافر کو روک روک کر ان کی خیریت دریافت کرتے، جسم کی حرارت کو دیکھتے پھر رخصتی کی اجازت دیتے

    واہ! ماشاء اللّٰہ! کیا ہی خوش اسلوبی سے آپ نے بیان کیا

    جواب دیںحذف کریں
  4. مسلسل پندرہ دنوں کے لئے مجھے " قرنطینہ کی قیدِ با مشقت " کی سزا سنا دی گئی
    اللّٰہ اللّٰہ

    جواب دیںحذف کریں
  5. یہ خبر موصول ہوئی کہ " آج دوپہر آپ کو اس جیل سے رہا کیا جارہا ہے اپنے گھر والوں کو اطلاع کر دیں " خبر سنتے ہی لمبی سانس بھری اور ابا حضور کو یہ مژدہ سنایا

    وہ بھی کیا دن تھے

    جواب دیںحذف کریں
  6. میرا بھی ایک مضمون اسی تناظر میں تھا اگرچہ ادبی استعارے اس میں کم ہیں؛ مگر لاک ڈاؤن میں طلبہ کتنی مشقتوں کے ساتھ اپنے گھروں کو روانہ ہوئے، اس کا علم ہو جائے گا👇
    http://ramin014007.blogspot.com/2021/11/blog-post_0.html

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی