مدارس کے سروے کا ایجنڈا کیا ہے یوگی سرکار کا مقصد ؟| محمد طاہر ندوی

  مدارس کے سروے کا ایجنڈا کیا ہے یوگی سرکار کا مقصد ؟

محمد طاہر ندوی



آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کو خوف کی سیاست اور نفسیاتی مرض کے بندھن میں باندھ کر رکھا گیا تاکہ کبھی بھی یہ اپنے مستقبل کے بارے کوئی منصوبہ یا کوئی پلاننگ تیار نہ کرسکیں۔ جب کبھی مسلمانوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی اور حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو سنوارنے کی طرف قدم بڑھایا تو اس کے سامنے ایسے ایسے حالات پیدا کردیے گئے کہ یہ قوم نفسیاتی طور پر بیمار اور خوف و دہشت کا شکار ہو کر رہ جائے اور کبھی ترقی کی اور نہ بڑھ سکیں۔ دراصل یہ آر ایس ایس کی اس پالیسی کا حصہ ہے جسے ڈاکٹر ہیڈ گیوار نے تیار کیا تھا اور مقصد یہ تھا کہ اس ملک میں صرف ایک تہذیب کا بول بالا ہو اور دیگر تمام تہذیب و ثقافت ، زبان و کلچر اور مذہبی نظریات اپنی شناخت کھو بیٹھیں اور اسی پالیسی اور نظریے کو آج بی جے پی سرکار تقویت پہنچا رہی ہے ۔

اب مسلمانوں کے سامنے ایک نیا ایجنڈا پیش کیا گیا ہے۔ اتر پردیش کی یوگی سرکار کی طرف سے ریاست کی تمام غیر تسلیم شدہ مدارس کے سروے کا ایجنڈا ۔ جس میں مدرسہ کا نام ، بچوں کی تعداد ، اساتذہ کتنے ہیں ، مدرسہ کس تنظیم کے تحت چل رہا ہے ، نصاب تعلیم کیا ہے ، آمدنی کے ذرائع کیا ہیں ، مدرسہ کی زمین رجسٹرڈ ہے یا نہیں ، مدرسہ کسی ذاتی عمارت پر قائم ہے یا کرایہ کی عمارت پر، پینے کے پانی ، فرنیچر ، بجلی کی فراہمی اور بیت الخلا کے انتظامات کیسے ہیں جیسے سوالات پوچھے جانے ہیں اور سروے کی رپورٹ 25 اکتوبر تک ڈی ایم کے ذریعہ حکومت کو سونپنے کی بات کہی گئی ہے ۔



سوال یہ ہے کہ یہ مہربانی مسلمانوں کے تعلیمی اداروں پر ہی کیوں ؟ کسی دوسرے مذاہب کے تعلیمی اداروں پر کیوں نہیں ؟ اس ملک میں گروکل چلتے ہیں ، مٹھ قائم ہیں ، دھرم شالا ئیں موجود ہیں اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ آر ایس ایس کے تعلیمی ادارے جس میں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ دی جاتی ہے ، ہندوازم کا پاٹھ پڑھایا جاتا ہے ، انہیں تشدد پرستی کی تعلیم دی جاتی ہے ، ان کا برین واش کیا جاتا ہے تو پھر ان اداروں کا سروے کیوں نہیں ؟

یوگی سرکار کا کہنا ہے کہ وہ سسٹم میں بہتری لانا چاہتی ہے ، وہ مدارس کو ماڈرنائیزیشن کر نا چاہتی ہے ، طلباء کے لئے بہتر سہولیات فراہم کرنا چاہتی ہے ، جبکہ سرکاری مدارس اور اسکولوں کا کیا حال ہے یہ سبھی جانتے ہیں ، اگر اسکول ہے تو ایجوکیشن نہیں ، بچے ہیں تو اساتذہ غائب ، اساتذہ ہیں تو پرنسپل غیر حاضر اور پرنسپل کی جگہ اس کا چاچا یا اور کوئی رشتہ دار کرسئ اہتمامت پر بیٹھا ہے ، اساتذہ کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ اسکول کا ٹیچر اپنی کھیت جوتنے میں مصروف ہے اور کلاس میں اس کی جگہ کوئی اور موجود ہے ۔اسکول کی عمارتوں کا حال اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے ، بچے بنیادی سہولیات جیسے بہتر کھانا ، صاف ستھرا پانی اور صاف و شفاف جائے قضاء حاجت ، بہتر یونیفارم اور کلاس کی کتابوں تک سے محروم ہیں، ایک طرف سرکاری اداروں کا حال یہ ہے کہ اساتذہ کو پانچ سال میں صرف پانچ مہینے کی تنخواہ دے رہی ہے اور حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ہمارے پاس فنڈ نہیں ہے اور دوسری طرف یوگی سرکار مسلمانوں کے تعلیمی ادارے کو ماڈرنائزیشن اور بہتر سہولیات کی فراہمی کی بات بھی کر رہی ہے اسی وجہ سے تعلیمی اداروں اور جمعیتہ علمائے ہند کے ذمہ داروں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے اور ایسا محسوس کر رہے ہیں جیسے اس سروے کے پیچھے حکومت کا کچھ اور ہی منشا اور مقصد ہے۔

اس سروے کے پیچھے حکومت کا منشا بالکل صاف ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حکومت مدارس کے تعلیمی نظام کو بے معنیٰ بنانا چاہتی ہے اور اس کے اصل مقاصد " احیاء دین " کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہ حکومت جانتی ہے کہ مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور انہیں قلعوں سے اہل اسلام کے ایمان اور عقیدے کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اور انہیں قلعوں سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتے کو مضبوطی ملتی ہے ۔ اس لئے سروے کے بہانے حکومت نصابِ تعلیم کو کمزور کرکے سیکولر تعلیم کا نظام قائم کرنا چاہتی ہے اور یہ بھی چاہتی ہے کہ ان مدارس میں دینی تعلیم صرف بیس فیصد رہ جائے اور اسّی فیصد عصری تعلیم دی جائے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس ایجنڈے کے پسِ پردہ مسلمانوں میں بدامنی اور انتشار پیدا کر کے انہیں ہراساں اور مسلسل ذہنی کوفت میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے تاکہ یہ قوم دائمی طور پر نفسیاتی مریض بن کر رہ جائے۔

اگر اس ایجنڈے کو آئین کی روشنی میں دیکھا جائے تو سراسر آئین کی خلاف ورزی ہے کیوں کہ دستور کے دفعہ 30 میں تمام اقلیتوں کو خواہ مذہب کی بنیاد پر ہوں یا زبان کی بنیاد پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کی تعلیمی ادارے قائم رکھے اور اپنا انتظام کرے اور جس میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ریاستیں کسی بھی ادارے کے ساتھ صرف اس وجہ سے کہ ادارہ کسی خاص مذہب یا زبان کی بنیاد پر قائم ہے امتیازی سلوک نہیں کر سکتی ۔ اتنی صاف اور واضح بات آئین میں موجود ہونے کے باوجود اگر یوپی سرکار صرف ایک کمیونٹی کی تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے تو اس کا مقصد بالکل واضح اور صاف ہے۔


1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی