صحافت کے ہاتھوں میں حکومت کی ہتھکڑیاں | محمد طاہر ندوی

 صحافت کے ہاتھوں میں حکومت کی ہتھکڑیاں

محمد طاہر ندوی

( سب ایڈیٹر ہفت روزہ ملی بصیرت ممبئی ) 



صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ صحافت کے ذریعے کسی بھی جمہوری ملک یا ریاست کی بقا و دوام منحصر ہوتی ہے اگر اس ستون کو گرا دیا جائے یا اس کے مقاصد کو فراموش کر دیا جائے تو جمہوریت کا زوال شروع ہوتا ہے اور جب جمہوریت کا زوال شروع ہوگا تو اس کی وجہ سے عدلیہ کا ستون متاثر ہوگا اور جب عدل و انصاف کے ادارے متاثر ہوں گے تو اس کا اثر انتظامیہ اور مقننہ کی دیواروں پر پڑے گا جس کی وجہ سے ملک کا نظام اور ملک کی عوام دونوں کے حقوق تلف ہوں گے کیوں کہ یہ صحافت ہی ہے جو جمہوریت کے باقی تینوں ستونوں کی سرگرمیوں اور ایکٹیوٹیز کو کنٹرول کرتا ہے اور عوام کو ان کے غلط اور صحیح کے بارے میں با خبر رکھتا ہے۔ 


ملک ہندوستان کو جس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت والا ملک کہا جاتا ہے اسی طرح اس ملک کو دنیا کی سب سے بڑی میڈیا منڈی بھی کہا جاتا ہے۔ اس ملک میں ۸۲۲۳۷ اخبارات ۹۰۰ سے زیادہ نیوز چینل اور ٹیلی ویژن اس کے علاوہ فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب اور بلاگر سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ صحافت دنیا کے لئے ایک آئینہ کے مانند ہوتا ہے۔ دنیا کی تلخ حقائق کی عکاسی کرتا ہے۔ حکومت کی کوتاہیوں اور نقائص کو بغیر کسی جانب داری کے عوام کے سامنے رکھتا ہے اور حکومت کی پالیسیوں کا تجزیہ کرکے عوام کے حق میں مفید ہے یا مضر اس سے عوام کو آگاہ کرتا ہے اور یہی میڈیا اور صحافت کا بنیادی مقصد بھی ہے۔ 

ملک ہندوستان میں گزشتہ چند سالوں سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ صحافت کے گلے میں غلامی کا پٹہ ہو یا ہاتھوں میں ہتھکڑیاں۔ غلامی کی صورت میں سستی شہرت، حکمرانوں کی قربت، یورپی ممالک کی سیر و سیاحت اور مفت میں بینک بیلنس بھی۔ اور ہتھکڑی کی صورت میں جیل کی سلاخیں، ظلم و تشدد، نفرت و عداوت اور مفت میں ملک سے غداری کا لیبل بھی۔ ہتھکڑی کی صورت وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں ایک صحافی صحافت کے اصولوں، قواعد و ضوابط اور مقاصد پر عمل کرتے ہوئے سچ کا آئینہ دکھاتا ہے۔ عوام کی آنکھوں اور کانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ حکومت کی غلط اقدامات اور غلط پالیسیوں کے بارے حکومت سے سوال کرتا ہے۔ اور سیاسی طاقت کے غلط استعمال کو روکتا ہے جس کی پاداش میں ان صحافیوں کو مختلف قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

سی پی جے ( کنٹرول ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ بارہ سالوں میں ۱۵۴ صحافی گرفتار ہوئے جس میں ۴۰ فیصد کیس صرف ۲۰۲۲ میں رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ صحافیوں پر جسمانی حملے بھی ۲۰۱۴ سے ۲۰۱۹ کے درمیان ۱۹۸ حملے درج کئے گئے ہیں۔ صحافیوں پر دہشت گردی، بغاوت، غیر قانونی سرگرمی، مخالف ریاست، منی لانڈرنگ، مذہبی منافرت جیسے الزامات موجودہ حکومت میں تیزی سے استعمال کئے جا رہے ہیں۔کشمیری جرنلسٹ آصف سلطان مخالف ریاست کے الزام میں ساڑھے تین سال سے جیل کی سلاخوں میں ہیں۔ کیرلا کے صدیق کپن جو اپنی ٹیم کے ساتھ ہاتھرس میں رپورٹنگ کے لئے جا رہے تھے اس پر مخالف ریاست کا الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا جب اس الزام سے بری ہوئے تو غداری کا الزام لگا کر پھر سے جیل کے حوالے کر دیا۔ اسی طرح آنند نیلتمبے ، گوتم نولکھا، منان ڈار اور راجیو شرما کو مخالف ریاست کے الزام میں جیل کے حوالے کر دیا گیا۔ تنویر وارثی انتقامی کارروائی کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں۔ پرشانت کنوجیا کو ایودھیا کے رام مندر کے بارے محض ایک ٹویٹ کرنے کی وجہ سے ۸۰ دن جیل میں رہنا پڑا اور ابھی فیکٹ چیکر آزاد صحافی محمد زبیر کو اس کے چار سالہ پرانے ٹویٹ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا پھر مزید سات آٹھ مختلف قسم کے مقدمات لگا کر ذہنی اذیت دی گئی۔ بالآخر سپریم کورٹ نے محمد زبیر کی ضمانت کو منظور کرتے ہوئے حکومت کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کر دیا۔ 

صحافت جمہوریت کا ایک آزاد شعبہ ہے اور اسی شعبے سے باقی شعبوں کی بقا و دوام منحصر ہے۔ یہ معاشرے اور سوسائٹی کا آئینہ دار ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کا ضامن ہے۔ حق و صداقت کی پہچان ہے۔ سچائی اور حقیقت کا رنگ و روپ ہے۔ حق گوئی و بیباکی کا علم بردار ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس ستون کی حفاظت کی جائے اور پوری آزادی کے ساتھ میڈیا اور صحافت کو بغیر کسی جانب داری اور دباؤ کے انہیں اپنا کام کرنے دیا جائے تاکہ یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ 









Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی