سے اے اے،این آر سی اور تحریک شاہین باغ' ایک لاجواب کتاب

 'سی اے اے،این آر سی اور تحریک شاہین باغ' ایک لاجواب کتاب

مؤلف: عبدالرحمن قاسمی

🖋️مبصر: ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی، حیدرآباد

رابطہ نمبر: 93953 81226



شاہین باغ یقینا ہندوستانی مسلمانوں اور سیکولر عوام کے اتحاد اور ایک جائز مقصد کے لئے کامیاب تحریک کا نام ہے جو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ شاہین باغ میں اپنے حق کے لئے ناسازگار موسم غیر یقینی حالات سے مقابلہ کرنے والی ہرعمر کی دوشیزاؤں اور خواتین نے شیرخوار بچوں کے ساتھ جس طرح سے 101 دن تک فرعونیت، آمریت کا مقابلہ کرکے انہیں گھٹنے ٹیکنے کیلئے مجبور کیا اسے خراج تحسین پیش کرنے کے لئے انٹرنیشنل میڈیا بھی مجبور ہوگیا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ واقعات یاد بن کر رہ جاتے ہیں۔ اور پھر بھولنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اس لئے ان واقعات کی یادیں بھی آہستہ آہستہ معدوم ہوجاتی ہیں۔ اگر انہیں قلمبند کردیا جائے تو آنے والے نسلوں کو اپنے اسلاف کی قربانیوں سے واقف کروانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ 22سالہ نوجوان عالم دین اور ایک ہونہار صحافی عبدالرحمن قاسمی نے یہی کام کیا ہے۔ انہوں نے CAA & NRC اور تحریک شاہین باغ کو 248صفحات میں محفوظ کردیا۔ اور اس کے لئے انہوں نے جس قدر عرق ریزی کے ساتھ مواد اکٹھا کیا اور تفصیل کے ساتھ عنوانات کے تحت آسان سلیس زبان میں پیش کیا اس کی تعریف کے لئے الفاظ کی کمی کا شدت کا احساس ہوتا ہے۔ تحریک شاہین باغ سے مربوط واقعات، اس کا پس منظر پڑھتے جائیں تو تصور کے پردہ پر پورے واقعات ایک فلم کی طرح متحرک ہوجاتے ہیں۔ مفتی عبدالرحمن قاسمی جو نگارشات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ دارالعلوم وقف دیوبند کے فاضل ہیں۔ چمپارن بہار سے تعلق رکھتے ہیں۔ فی الحال انگلش ڈپلوما کورس کی تکمیل کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنی مرتبہ کتاب میں این آر سی یعنی شہریت ثابت کرنے کے قانون، CAA یعنی شہریت ترمیمی قانون، NPR یعنی قومی آبادی کا رجسٹر اس کا تاریخی پس منظر اس کے نفاذ کا مقصد، ان قوانین کے نفاذ سے ہر ہندوستانی شہری پر ہونے والے منفی اثرات، اس کی مخالفت، اور احتجاج، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے مظاہرے، ان کی دہلی پولیس کے مظالم اور گرفتاریاں، دیوبند اور لکھنؤ طلبہ اور مدارس کا احتجاج اور پھر شاہین باغ میں تحریک پر اس قدر جامع مضامین مستند حوالوں کے ساتھ لکھے ہیں کہ بار بار انہیں خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ شاہین باغ کا تاریخی پس منظر ڈاکٹر یامین انصاری (روزنامہ انقلاب) کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ 35برس پہلے 17 ایکڑ 85 بگھا اراضی پر یہ ایک ایسی آبادی تھی جسے دو کسانوں سے 1984-85ء میں شارق انصاراللہ کے ذریعہ خریدکر ابوالفضل انکلیو پارک ویو کے نام سے پلاٹنگ کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ شاہین باغ کا نام علامہ اقبال کے شاہین سے متاثر ہوکر رکھا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شاہین باغ کے رقبے کی توسیع ہوتی گئی۔ شکیل شمسی سابق ایڈیٹر انقلاب نے شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین کو بہت ہی متاثر کن انداز میں پیش کیا انہوں نے شاہین کا تعارف کچھ اس طرح کرایا۔ شاہین پرندوں کا بادشاہ، پہاڑوں کا شہزادہ کہا جاتا ہے۔ وہ ایسی خوبیوں کا ملک ہے جو کسی اور پرندے میں نہیں۔ وہ 15 ہزار کی بلندی تک آسانی سے اڑان بھر سکتا ہے۔ وہ اپنے ہی معیار کے شاہینوں کے ساتھ اڑنا پسند کرتا ہے۔ تین کلو میٹر بلندی سے اپنے شکار کو دیکھ لیتا ہے۔ شاہین جوڑا کانٹے دار درختوں پر انڈے دینے کے لئے گھونسلہ بناتا ہے اور اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔ کبھی مادہ شاہین اور کبھی مرد شاہین اس کی نگرانی کرتے ہے۔ تیز آندھی اور طوفان میں بھی یہ اپنے گھونسلے میں نہیں جاتا بلکہ آندھی طوفان کا مزہ لیتا ہے۔ یہی صفات شاہین باغ کی خواتین میں ہیں جنہوں نے آگے کا سوچا جو اپنے چوں کے ساتھ آندھی طوفان کا مقابلہ کردے دیکھا۔


 شاہین باغ کو بدنام کرنے کیلئے وقفہ وقفہ سے کی جانے والی سازشوں، کوششوں، ارباب اقتدار کا تعصب اور ان کی تعصب پسندی کو مختلف زبانوں کے اخبارات کے حوالوں سے پیش کیا گیا۔ دہلی کی شاہین باغ کے طرز پر پورے ملک میں شاہین باغ قائم ہوئے۔ لکھنؤ کا شاہین باغ میں جس طرح سے حملے کئے گئے انہیں شاید گودی میڈیا نے اہمیت نہ دی ہو مگر عبدالرحمن قاسمی نے تاریخ، وقت کے ساتھ اپنی کتاب میں محفوظ کردیا۔ CAA مخالف مظاہرین کی جانی و مالی نقصانات، 114 ایف آئی آر کی تفصیلات، یوپی کے مختلف اضلاع میں لاپتہ ہونے والے، پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے افراد کے علاوہ 23 مہلوکین کی تفصیلات، 19دسمبر 2029ء کے دوران یہ مظاہرین شہید ہوئے ہیں۔ یہ 23 کے 23 مسلمان ہیں۔ ان میں سے کوئی مزدور ہیں‘ کوئی کباڈی، ٹھیلے والا، آٹو ڈرائیور، رکشہ والا، ٹریک ڈرائیور، طالب علم ان میں سے کسی کے سر میں، کسی کے حلق میں، کسی کے سینے میں، اور کسی کی آنکھ میں،کسی کے پیٹ میں گولی لگی ہے۔ عبدالرحمن قاسمی نے عدالتی فیصلوں کو پیش کیا اور جلتی ہوئی دہلی کی کہانی کو بہت ہی متاثر کن انداز میں پیش کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں ہونے کی سزا دی گئی۔ جس طرح بکاؤ میڈیا آگ پر تیل چھڑکتا رہا اور فسادیوں کی مدد کرتا رہا۔ 23/فروری 2020 سے 25 فروری 2020ء تک یعنی صرف دو دن میں دہلی فساد کے دوران مسلم کن فسادات میں جو نقصانات کیا گیا اس کی تفصیلات فہرست کو بھی پیش کیا گیا۔ یقینا یہ ایک دستاویز ہے جس کا ہر گھر میں رہنا ضروری ہے۔ شاہین باغ کے ملک بھر میں ہونے والے اثرات، ڈاکٹر کفیل خان پر ظلم کی کہانی، ان کے خلاف پولیس کی غلط بیانی، جامعہ ملیہ اور جے این یو کے جانبازوں یعنی عائشہ رینا، لدیدہ فرزانہ، چندا یادو، آصف ا قبال، قاسم عثمانی صفورا زرگر، گلفشاں فاطمہ، میران حیدر، محمد انور، عمرخالد، شرجیل امام آفرین فاطمہ(الہ آباد میں جن کے گھر پر بلڈوزر چلادیا گیا تھا)۔ نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا کا مفصل تعریف، اس کے علاوہ شاہین باغ تحریک کے گرفتار قائدین خالد سیفی، عشرت جہاں، شاہ رخ خان پٹھان کے ساتھ ساتھ شاہین باغ کی ضعیف العمر دادیوں 90سالہ اسماء خاتون جنہیں ٹائمس میگزین نے سر ورق پر جگہ دی۔ 75سالہ سروری خاتون، 82سالہ بلقیس بانو کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔


عبدالرحمن قاسمی نے اپنے پیش لفظ میں بتایا کہ انہوں نے لاک ڈان کے دوران بڑی مشکل سے ڈاٹا اکٹھا کیا تھا۔ جس طرح سے انہوں نے قلم چلایا قابل تعریف ہے۔ اس کتاب کے سب سے خاص بات یہ ہے کہ ہر فرد، ادارہ، انجمن، قوانین کا اگر ذکر کیا ہے تو حاشیہ میں ان سے متعلق مختصر تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔ جس سے ان کی کم عمری میں غیر معمولیت قابلیت اور آگے والے برسو میں بر صغیر کے ایک زبردست صحافی اور عالم دین کی حیثیت سے ابھرنے کا یقین ہوجاتا ہے۔ ممتاز صحافی ودود ساجد ایڈیٹر انقلاب نارتھ نے جامع مقدمہ لکھا، ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے بہت اچھے تاثرات کا اظہار کیا۔ مفتی محمد نوشاد نوری قاسمی نے تقریظ میں اپنے ہونہار شاگرد کو خرا ج تحسین پیش کیا۔


مجموعی طور پر تحریک شاہین باغ ایک لاجواب، بے مثال کتاب ہے۔ جس کی ہر سطر کبھی جسم کے رونگٹے کھڑی کرتی ہے کبھی رگوں میں دوڑ نے والے لہو کی رفتار کو تیز کردیتی ہے۔ کبھی تڑپتا ہوا دل آنسو پر چھلک جاتا ہے۔ اور زبان سے بے اختیار اس ہونہار صحافی اور عالم دین کے روشن مستقبل اور اس کی سلامتی کے لئے دعا نکلتی ہے۔ اللہ رب العزت اس کی کاوشو ں کو قبول کرے۔ آمین


کتاب حاصل کرنے کا طریقہ ___________________ 8791519573یہ مصنف کا واٹس ایپ اور فون پے و گوگل پے نمبر ہے،واٹس ایپ پر ڈاک پتہ بھیج دیں اور ساتھ ہی میں کتاب کی قیمت ڈاک خرچ کے ساتھ220روپیہ ٹرانسفر کرکے اسکرین شارٹ سینڈ کردیں___ان شاء اللہ تعالیٰ ہفتہ ،دس دن میں یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہوگی__

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی