بنگلادیش پر ہنگامہ اور تریپورہ پر خاموشی
محمد طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ
یہ دوغلا پن ہندوستانیوں کا اب اٹوٹ حصہ بن چکا ہے ، بات جب اپنی جان پر بن آتی ہے تو چیخنے چلانے لگتے ہیں اور دوسروں کی ہو تو گڑ کھا کر بیٹھ جاتے ہیں ، یہ دوغلا پن ہمارے کلچر کا اب ایک حصہ بن چکا ہے ۔
گزشتہ دس دنوں میں دو فساد ہوئے ایک بنگلادیش کا جہاں ایک ہندو شر پسند نے قرآن کریم کی بے حرمتی کی اور پھر تصویر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا یہ دیکھتے ہوئے مسلمانوں نے 14 اکتوبر کو مندروں پر توڑ پھوڑ کی ، اقلیت کو نقصان پہنچایا جس کے بعد یہ معاملہ ایک فساد کی صورت اختیار کر گیا جس میں چھ لوگوں کی جان چلی گئی اور دیڑھ سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے لیکن ایک بات جو قابل تعریف ہے وہ یہ کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بر وقت کاروائی کرتے ہوئے چار سو سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کیا اور کہا کہ یہ جس نے کیا ہے وہ اسلام کے خلاف ہے ، اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ، ہمارے ملک کے امن و یک جہتی کے خلاف ہے اور ہمارے ملک کے قانون کے خلاف ہے جس کو ہاتھ میں لینے کی اجازت کسی کو نہیں ہے اور اس فساد کے پیچھے جو لوگ ہیں انہیں کسی صورت نہیں بخشا جائے گا ۔
اس واقعہ کے بعد مسلم سماج کی کئی تنظیموں نے اور دانشوروں نے اس کی مذمت کی اور کہا کہ جرم جرم ہوتا ہے چاہے کرنے والا کوئی بھی ہو وہیں دوسری طرف کچھ جزباتی مسلمان اپنے جذبات کا سمندر بہاتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ ہوا وہ بالکل درست ہے ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے جو کہ بالکل غلط ہے انہیں سمجھنا چاہیے کہ اگر بنگلا دیش کی اقلیت ہندؤوں پر ظلم ہوگا تو ہندوستان کے وہ مسلمان جو کسی جگہ اقلیت میں ہیں وہ کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں ؟
دوسرا معاملہ بھارت کے تمام صوبوں میں تیسرا سب سے چھوٹا صوبہ نارتھ ایسٹ کے تریپورہ کا ہے ، جہاں کی کل آبادی 36 لاکھ کی ہے جس میں 30 لاکھ ہندو مذہب کے ماننے والے ، 3 لاکھ اسلام مذہب کو ماننے والے اور بقیہ 3 لاکھ دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں ۔
جہاں بنگلادیش کے فساد کو لے کر گزشتہ 21 اکتوبر کو تیرہ مختلف ہندو شدت پسندوں کی جماعتوں نے مل کر ایک ریلی نکالی جس میں وشو ہندو پریشد ، آر ایس ایس اور بجرنگ دل کی جماعتیں بھی تھیں ، جس ریلی کا مقصد ہی مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنا ، مساجد پر حملہ کرنا اور مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچانا تھا اور یہ حملہ گزشتہ تین دنوں سے جاری ہے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہاں کے مسلمانوں کی حالت کیا ہوگی کس قدر وہ خوف و دہشت میں جی رہے ہوں گے ، انہیں جمعہ کی نماز تک ادا کرنے نہیں دی گئی ، تریپورہ کے مسلمانوں کی یہ بد نصیبی کہہ لیجئے کہ وہاں کی سرکار نے ہندو دہشت گردوں پر کوئی کارروائی ، کوئی گرفتاری یا کسی طرح کا کوئی ایکشن نہیں لیا جبکہ اس کے بر خلاف بنگلا دیش میں فوری کارروائی ہوئی جس میں چار سو سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کیا اور ساتھ ہی اس شر پسند کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے جس نے قرآن کریم کی بے حرمتی کرکے اس کی تصویر کو پوسٹ کر دیا تھا لیکن تری پورہ میں ایسا کچھ نہیں ہوا ، نہ کسی نے تری پورہ کے مسلمانوں کے لئے آواز اٹھائی نہ گرفتاری کی کوئی صدا بلند ہوئی ۔
مجھے تو افسوس ہے ان لوگوں کی ذہنیت پر جو یہ کہہ رہے تھے کہ بنگلا دیش میں ہندو خطرے میں ہیں ، ہندوؤں کو مذہبی آزادی نہیں ، بنگلادیش سرکار اپنے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ
تو ایسے لوگ ہمیشہ ذہنی مریض تھے اور رہیں گے کیوں کہ ان کے اندر کی انسانیت اب مذہب ، دھرم ، ذات ، برادری دیکھ کر ہی انگڑائی لیتی ہے ، اگر ان کے اندر کا انسان زندہ ہوتا تو تری پورہ کے مسلمانوں کے حق میں لکھتے بولتے آواز اٹھاتے اور کہتے کہ تری پورہ کے مسلمان خطرے میں ہیں ، انہیں مذہبی آزادی نہیں اور تری پورہ کی سرکار مکمل طور پر اقلیتوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوئی ہے اور حکومت خود بھی شر پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے ایسا کہہ سکتے تھے لیکن ہر طرف خاموشی ہے سناٹا ہے ۔
کاش کہ ہم انسان انسانیت کے بل بوتے آواز اٹھاتے نہ کہ مذہب اور دھرم کی بنیاد پر تو کتنا بہتر ہوتا ، ہر طرف شانتی ہوتی ، امن و سکون ہوتا ، بھائی چارگی ہوتی اور ملک پھل اور پھول رہا ہوتا ۔
ایک تبصرہ شائع کریں